1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سعدیہ بشیر/
  4. بنے ہے شاہ کا مصاحب

بنے ہے شاہ کا مصاحب

بادشاہ چھت پر آیا تو عوام نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ بادشاہ سلامت کے فلک شگاف نعروں میں تعطل تب آیا جب بادشاہ نے ظالم ملکہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنا تاج اس کے سر پر رکھ دیا اور حکم دیا کہ آج سے ملکہ کا ہر فیصلہ میرا فیصلہ ہے۔ عوام کے چہروں پر زردی اتر آئی۔ قاضی نے اپنے نالائق بیٹے کو مسند پر بٹھا کر کہا کہ آج سے میرا بیٹا بھی میرے فیصلوں میں برابر کا شریک ہے۔ مظلوم کی آہ گھٹ گئی۔

امام نے اپنے آوارہ بیٹے کے سر پر پر اپنا عمامہ رکھتے ہوئے اسے امامت کا حصہ دار بنایا۔ لوگوں کے چہروں پر خوف در آیا۔ صاحب کے ڈرائیور، مالی، خوشامد کرنے والا طبقہ سب کو یہ ہی تاثر دیتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی چھو کو پارس بنا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پیتل پر سونے کا پانی چڑھا بھی ہو تو وہ سونا نہیں بن سکتا۔ گدھے پر شیر کی کھال چڑھا کر اسے شیر تسلیم کروانے والا بھیڑیا ہو سکتا ہے، شیر نہیں۔

اختیارات کی یہ بندر بانٹ بندر کی بلا طویلے کے سر رکھنے والی تھی۔ شاعر نے تو محبوب کے لیے کہا تھا کہ"لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں" لیکن یہ ہر اس بے اختیار شخص پر صادق آتا ہے جو نہایت چالاکی سے یا جہالت سے تخت پر برابری کا دعوی دار بن بیٹھتا ہے اور با اختیار اسے عشق میں کامیابی گردانتا ہے۔ اختیارات کی شفاف تقسیم ہر دور میں ایک سوالیہ نشان رہی ہے۔ بادشاہوں کی غیر مشروط غلامی سے نالاں اختیارات کے بلا شرکت غیرے حق ملکیت کے خواہاں نظر آنے لگے۔ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام ہے سو پانی بھی پنسال میں ہی آ جاتا ہے۔

خدا جانے پنسال کو اقربا پروری کا نام کس نے دیا اور اختیارات کو ٹافیاں سمجھ کر انصاف نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر ریوڑیوں کو اپنوں کے پھٹے دامن میں کیونکر بھرنا چاہا۔ اختیارات کے ناجائز استعمال کا دریا تو نشیب کی طرف بہہ رہا ہے۔ جس طرح جوانی پھٹ کر جامے سے باہر نظر آنے لگتی ہے۔ ایسے ہی ایسی افسری بھی اپنے جامے میں نہیں رہ سکتی۔ سچ ہے جو نظر نہ آئے وہ کیسی افسری؟ اختیارات کے یہ بم تباہ کن ہیں۔

اس روایت کا بانی کوئی بھی ہو لیکن یہ طے ہے کہ لیلی لیلی کا ورد پڑھتے ہوئے "کیدو" نے بھی خود کو لیلی کا ہی نام دیا ہے۔ دو چار برس سسٹم میں رہ کر آنکھیں سسٹم کے بنائے بڑے لوگوں کو دیکھنے کی عادی ہو جاتی ہیں اور ہر طرف بونے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔ سو پھول کے ساتھ گملا مارنے کی شرط پورا ہی کرنا پڑتی ہے۔ بھلے اختیارات کی جنم کنڈلی میں شجرہ کانٹوں کی پھنکار سے سیاہ رو ہو چکا ہو۔ یہ بدنیتی ہمارے فالج زدہ سسٹم کا یرقان زدہ چہرہ ہے۔ جہاں خدائی کے کارخانے میں بے احتیاجی کو تونگری نہیں سمجھا جاتا بلکہ محمد حسین آزاد کے مطابق "لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اگر ہمارے پاس ہر شے ضرورت سے زیادہ ہو اور ہمیں اس کی حاجت بھی ہو یا نہ ہو لیکن تونگر ہم جبھی ہوں گے جب کہ ہمسایہ ہمارا محتاج ہو"۔

کہانی ہے آدھے حصے کی۔ جہاں طمع خام ہر روپ اور صورت میں دامن کشا رکھتی ہے۔ پیر کرامات ہے تو اس کا ننھا بچہ ان پھونکوں میں وراثتی حصہ دار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان پھونکوں سے کوئی چراغ جلتا ہے نہ ہی بجھتا ہے۔ لیکن یہ ننھے سکالر شیر خوردگی میں ہی شر پھیلانے پر آمادہ عمل ہیں۔ اختیارات نہ ہوئے، آنکھ کے بال ہو گئے کہ ایک بال کسی کو بھی تھمایا اور تاکید کی کہ جونہی یہ بال چمکے گا، کوئی چراغ نہیں جل سکے گا۔ افسران کی بیگمات اور اولاد کی حصہ داری میں چھوٹی چھوٹی خواہشات کے سنپولے خاصی تباہی پھیلاتے ہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ نظام انصاف میں ساس بہو کے ڈرامے کیسے کیسے سین کری ایٹ کرتے ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں اور تو اور اختیارات کی یہ سانجھ بیچ سڑک دفاعی مورچے بنا سکتی ہے، یہ ویڈیو بھی موجود ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ سانجھ کی یہ ہنڈیا چوراہے میں نہیں، خواب گاہوں میں پھٹتی ہے۔ ہمارے نظام میں نظام سقہ اور بچہ سقہ کے کردار نہ صرف اشرفیاں سمیٹتے ہیں۔ بلکہ اقربا پروری میں چمڑے کے سکوں کو بھی اشرفیاں تسلیم کروانے کے احکامات صادر کرتے ہیں۔ یہ مصنوعی آب و تاب کتنے ہی جعلی محبوب تخلیق کرنے پر قادر ہے۔ بھلا ہر چہرے پر محبوب کا گمان کیسے ہو سکتا ہے۔

تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت

ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں

ہائے حسرت ہے ایسی لفافہ خوش فہمیوں پر جن کا تسلسل جگ ہنسائی سے بھرا ہوا ہے۔ اختیارات کی منتقلی میں شفافیت پہلا اور بنیادی عنصر ہے۔ گدلے پانی کی سپلائی سے کھیت کھلیان ہی نہیں، فصلیں بھی زہریلی ہو جاتی ہیں اور اگر یہ پانی تعصب، خود غرضی اور مذہبی منافقت کی جہالت سے لبریز ہو تو منہ زور سیلاب سے زیادہ تباہ کن ہے۔ محبوب کتنا بھی خوب صورت ہو۔ وہ زبردستی سے پیا من تو بھا سکتا ہے۔ لیکن محبوب حقیقی کے تقاضے اور ہی ہیں۔ اس عمل کی توجیہ محمد حسین کے الفاظ میں، "ہر ایک کے دل میں خود بخود یہ کھٹک پیدا ہوئی کہ سامان عیش و آرام کا جو کچھ ہے میرے ہی کام آئے اور کے پاس نہ جائے۔ اس غرض سے اس گلزار میں گلگشت کے بہانے کبھی تو فریب کے جاسوس اور کبھی سینہ زوری کے شیاطین آ کر چالاکیاں دکھانے لگے، پھر تو چند روز کے بعد ان کی ذریات یعنی غارت، تاراج، لوٹ مار آن پہنچے اور ڈاکے مارنے لگے، جب راحت و آرام کے سامان یوں پیدا ہونے لگے تو رفتہ رفتہ غرور، خود پسندی، حسد نے اس باغ میں آ کر قیام کر دیا"۔

یہ سب عوامل اختیارات کی چادر تلے سسکتے رہتے ہیں۔ بے اختیاروں کی برابری کی خواہش اور تاریخ کے نقوش دو الگ تصاویر ہیں۔ جس دور میں امام ابو حنیفہؒ، امام جعفر صادقؒ اور امام مالکؒ ایک جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہہ رہے تھے تو اسی دور میں ایسے علماء بھی تھے جو اپنی خوشامد کے باعث خلیفہ کے منظورِ نظر بن گئے۔ حکمرانِ وقت کی خوشامد کرنے والے درباری علماء کو آج کوئی نہیں جانتا۔ آج اگر کسی کا نام زندہ ہے تو جابر حکمران کے سامنے انکار کی پاداش میں جیل جانے اور کوڑے کھانے والے علماء کا نام زندہ ہے۔ یہ ہی جعلی اختیارات کا فسانہ ہے۔ جو تم ہو نہیں اس کی دعوی داری کیونکر۔ رہے نام اللہ کا۔۔