شعور دیکھا، مزاج پرکھا، دلیل پائی تو ڈگمگایا
ہزار رمزیں جفا کی لے کر نیا وہ فتویٰ نکال لایا
سکوت میں بھی صدا تھی پنہاں، جو آشنائی سے تھی گریزاں
وہ عکس کیسا، یہ رنگ کس کا، گماں نے خود سے بھی منہ چھپایا
جو رنگ بکھرے، گلال چمکا، تو بات خوشبو سے بڑھ کے پھیلی
ہوا کو چھو کر بجھے چراغوں میں دکھ شکستہ بھی جگمگایا
فصیلِ منطق پہ چادروں نے لہو سے کتنے ہی پھول کاڑھے
کہ سرد لہجے کی ڈھال اوڑھے قدم زمیں پہ وہ رکھ نہ پایا
نظر میں اس کی دھواں معلق، تھا کہنہ منظر پہ عکس میرا
کہ بعد مدّت کے دیکھ مجھ کو، وہ بے وفا کیسا سٹپٹایا
مکالمہ سے گریز پا تھا سو تلچھٹی سی چٹان لے کر
وہ لب پہ تھےمہر جیسے پتھر جنھیں جوابوں میں ڈھال لایا
فریبِ معنی نے بھید کتنے ہی وسوسوں کی بنا میں رکھے
یقین اپنی سلامتی کی چمک سنہری بچا نہ پایا