1. ہوم/
  2. غزل/
  3. سعدیہ بشیر/
  4. کچھ تقاضے لیے، کچھ بہانے لیے

کچھ تقاضے لیے، کچھ بہانے لیے

کچھ تقاضے لیے، کچھ بہانے لیے
دل کی وحشت سوا، چار خانے لیے

چاند تارے لیے رات آدھی رہی
ایک آنسو گرا، سو فسانے لیے

وہ بصارت تو ان کی نظر لے گئی
آستاں سے گئے، آستانے لیے

یہ تجاہل ترا عارفانہ نہیں
تو ابھی تاک میں ہے نشانے لیے

چند لمحوں میں دریا سمندر ہوئے
درد کی ناؤ میں سب زمانے لیے

سانپ تو کب سے بل میں مقید ہوا
بس مداری ملے شاخسانے لیے

وقت کے اس بھنور سے نکل جائیں گے
یاد رک جائے گی تازیانے لیے

جانے والے یہیں جسم اوڑھے ملے
ہم تحیر زدہ سرد خانے لیے

راہ داری کے خوابوں کو گھن لگ گیا
بس یہ تعبیر ہے کچھ ترانے لیے