1. ہوم/
  2. غزل/
  3. سعدیہ بشیر/
  4. حیرت زدہ ہیں کرچیاں اشکوں میں ڈھال کے

حیرت زدہ ہیں کرچیاں اشکوں میں ڈھال کے

حیرت زدہ ہیں کرچیاں اشکوں میں ڈھال کے
تھکنے لگے ہیں درد بھی لفظوں میں پال کے

بجھتے ہوئے چراغ میں ایسا تھا طنطنہ
ہم سے ملے تھے خواب بھی نظریں سنبھال کے

عمرِ رواں کی ماندگی تقسیم ہوگئی
دو چار دن ہی یاد ہیں ہر ماہ و سال کے

تجھ سے وفائے عہد کا منشا نہ ہوسکا
انداز سارے تجھ میں ہیں بس بھیڑ چال کے

ایسی سپردگی کہاں خود کے بھی ہوسکیں
خدشے امڈ رہے ہیں ابھی احتمال کے

خواہش کے مردہ جسم کو دفنائیں گے کہاں
ٹکڑے سنبھالنے پڑے جو اس ملال کے

ہجر و وصال کی تو کوئی بات بھی نہیں
صدمات ڈھانپتے ہیں ابھی اندمال کے