1. ہوم/
  2. غزل/
  3. سعدیہ بشیر/
  4. کھلی تھی آنکھ کتنی بار بے داری سے پہلے بھی

کھلی تھی آنکھ کتنی بار بے داری سے پہلے بھی

کھلی تھی آنکھ کتنی بار بے داری سے پہلے بھی
رہی تھی گفتگو خود سے گرانباری سے پہلے بھی

میں جتنا بھی نبھائے جا رہی ہوں مصلحت ہے یہ
تعلق واجبی سا تھا رواداری سے پہلے بھی

ہم اپنی ذات کےہی آنجہانی خواب ہیں شاید
بڑی گنجلک کہانی تھی یہ تہہ داری سے پہلے بھی

سنہرے دل کی تاروں سے بندھا جو سرخ فیتہ ہے
تھا مبہم استعارہ یہ صدا کاری سے پہلے بھی

محبت کا شجر کیسا بھی ہو سایا نہیں بنتا
فروزاں غم کا منظر ہے نموداری سے پہلے بھی