1. ہوم/
  2. غزل/
  3. سعدیہ بشیر/
  4. ہاتھوں میں دل کے آ گئے قیدی دماغ کے

ہاتھوں میں دل کے آ گئے قیدی دماغ کے

ہاتھوں میں دل کے آ گئے قیدی دماغ کے
تاروں کے رقص میں نہیں منظر صباغ کے

قائل نہ کر سکے تھے وہ اجلے فریب سے
ہم رنگ گھولتے رہے، داعی وہ داغ کے

معذور اس قدر تھے کہ بس گنگ رہ گئے
جلتے ہوئے سوال تھے بجھتے چراغ کے

تاویل کے جواز میں دو حرف کا ٹویٹ
شاہین کے اسلوب میں تیور ہیں زاغ کے

ایسا تھا پہلو دار وہ خطبہ خطیب کا
منصف کے ہاتھ سے گرے پتھر سراغ کے

اس چشم نم سے خواب کی تعبیر کب کھلی
صوفی کے ہاں بھی بجھ گئے صدمے ایاغ کے

باد صبا کے ہاتھ میں بس نا رسائی تھی
کیسی ہوا کے دوش پہ ہیں تخت باغ کے

بیٹھیں تو ساری زندگی یونہی گزار دیں
سوچیں تو ہاتھ سے گرے لمحے فراغ کے

پرکار میں بس دائرہ تھا، زاویہ نہ تھا
رستے نہیں کھلے تھے ابھی انفراغ کے