بات شروع کرتے ہیں چند حقائق سے۔۔
1۔ اہلِ تشیع کے تصورِ "تقیہ" کو باقی کے مسالک غلط تصور کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ "حیلہ" جائز بلکہ حکمت کی نشانی بھی سمجھا جاتا ہے۔
2۔ مسلمانوں کو بغیر شدید ترین مجبوری دار الکفر جانا غالباً منع ہے۔
3۔ ہجرت (نقل مکانی کر لیں مسئلہ ہو تو) کے بعد شریعت کی جانب سے پرائے ملک میں زندگی گزارنے کے الگ احکامات میرے ناقص علم کے مطابق دستیاب ہیں جس میں مقامی قانون کی پاسداری شامل ہوتی ہے۔
4۔ انسانی قوت کے حوالے سے جدید ریاستوں کو عموماََ امگرینٹس کی ضرورت رہتی ہے۔
5۔ امگریشن، ڈائیورسٹی کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔
آگے چلتے ہیں۔ ضروری نہیں آپ کو یہ اظہار خیال پسند بھی آئے۔ ایسا ہو تو کوشش کریں اختلاف کے اظہار کے لیے اپنے پاس دلیل ہونے کا ثبوت دیں ناکہ اپنے زلیل ہونے کا کیونکہ دلیل ہو نہ ہو زلیل مجھے بھی کرنا آتا ہے۔
جن ممالک میں امگریشن کے خلاف جذبات پیدا ہو رہے ہیں یا راسخ ہوچکے ہیں وہاں کی مقامی آبادی کی ایک شکایت یہ ہے کہ امگرینٹس کا ایک بڑا حصہ ہماری اقدار سے متصادم رہتا ہے۔ بظاہر یہ کافی broad perspective ہے مگر ہم تصادم پر نظر دوڑائیں تو معاملات آسان ہوجاتے ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ اب جو میں لکھنے والا ہوں وہ کئی لوگوں کو پسند نہیں آنے والا لیکن یقین کیجیے میں آپ کی خواہشات کا تابع نہیں بصورت دیگر میں آپ کو مجرا کرکے بھی دکھا دیتا تب بھی آپ نے راضی نہیں ہونا تھا۔
ہماری اقدار مغربی اقدار سے کہاں کہاں ٹکراتی ہیں؟
1۔ ایک سے زائد شادیاں رچاتے ہوئے۔
2۔ کم عمر لڑکیوں سے نکاح کرتے ہوئے یا انہیں دائرہ مذہب کی جانب کھینچتے ہوئے ایسی کوشش کرتے ہوئے۔
3۔ یھود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے ایسا مان کر ان سے الگ تھلگ رہتے ہوئے۔
4۔ سیکولر مغربی ممالک میں اس شریعت کے نفاذ کی عملی کوششیں کرتے ہوئے جس پر تاحال ہم کیلا ریپبلک میں بھی متفق نہیں۔
5۔ اپنی وضع قطع خصوصاً خواتین کی وضع قطع کچھ ایسی بناتے ہوئے جو مغربی سیکولر ممالک میں oppression کی مد میں شمار ہوتی ہے۔
6۔ کبھی کبھار جہاد بالنفس و جہاد بالقلم سے ذرا آگے بڑھ کر اسلحے والے جہاد پر کاربند ہوتے ہوئے۔
7۔ مقامی آبادی کی نسبت سستی افرادی قوت فراہم کرتے ہوئے۔
چونکہ اقدار پر یہ حملے مغربی ممالک کی عوام محسوس کرتی ہے لہذا problem statement کا تعین کرنے کے لیے کینسر راجے یا جاہل قدیم کو سننے کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے کسی مغربی رائٹ ونگ کے ترجمان کی جانب سے فرد جرم سننے کا حوصلہ کیجئے تاکہ آپ کو درست یا غلط سے قطع نظر کم از کم مخالف مؤقف سمجھ آسکے۔ پھر آپ بیشک اسی متن سے دلائل لا کر اگلوں کا منہ بند کر دیجیے جسے اگلے مانتے ہی نہیں۔ میرے اور آپ کے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا، مقامی آبادی کے تحفظات بہرحال دور کرنا ایک وقت پر ریاست کے لیے ضروری ہوجاتا ہے۔
اب۔۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اوپر دیے گئے ساتھ معاملات میں سے چھ کا براہ راست تعلق مذہب پر کاربند رہنے سے متعلق ہے۔ نیز۔۔ یہ سات کے سات مسائل یورپ اور امریکہ کو شدت کے ساتھ محسوس ہو رہے ہیں، آسٹریلیا میں ساتواں مسئلہ وجود نہیں رکھتا کہ یہاں کم سے کم آمدنی بھی اچھی خاصی ہے، کیش پر کام کم ہوتا ہے اور مقامی آبادی بھی اتنی ہی بلکہ امگرینٹس سے کہیں زیادہ محنتی ہے، البتہ باقی کے چھ مسائل کو لے کر مقامی آبادی میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔
اس کا حل کیا ہو سکتا ہے؟
میری ادنی دانست میں ایک حل موجود ہے جو ہر دو فریقین کو اپنے اصولوں اور نظریات کی بنیاد قابل قبول ہونا چاہیے۔ اصولوں اور نظریات کی بات کرتے ہوئے میں نے تمام خود غرض اور موقع پرست انسانوں کو equation سے منہا کر دیا ہے کہ یہ ویسے بھی چول ہوتے ہیں، کم از کم آسٹریلیا کی امگریشن میں ٹاپ پر نہیں پہنچ سکتے اور یوں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یورپ خاص کر برطانیہ نے البتہ اس بابت نہایت کم معیار کا مظاہرہ کیا جس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ میں آسٹریلیا کی مثال لے کر ایک حل تجویز کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ مجھے یہاں کی امگریشن اور پھر شہریت کا ذاتی تجربہ حاصل ہے۔ آپ اسی سے بلیو پرنٹ اٹھا کر یورپی ممالک پر اپلائی کرکے دیکھ لیں۔
1۔ بلاشبہ مذہبی عقائد فرد کا ذاتی معاملہ ہے تاہم کامن ویلتھ آف آسٹریلیا اعلانیہ سیکولر ریاست ہے۔ یہاں کے قوانین آپ کو بیک وقت دو نکاح سے قانونی طور پر روکتا ہے جس کا واضح طور پر مطلب یہی ہے کہ یہاں کا قانون مذہبی قوانین سے بالاتر ہے۔ امگریشن پراسیس کے اندر ایک حصہ compliance to Australian values کا ہونا چاہیے جہاں آسٹریلین امگریشن یا ورک پرمٹ میں دلچسپی رکھنے والے فرد کو اپنا مذہب ڈیکلئیر کرنا ہوگا تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ فرد جس سوچ کے تحت پرورش پا کر آرہا ہے اس سوچ کے تحت نجی حیثیت میں ریاست اور ریاستی عوام کی اقدار سے کس حد تک دور ہو سکتا ہے۔ یہ کمپلائینس ہر اس فرد پر لاگو ہوگی جو خود کو کسی بھی مذہب کا پیروکار کہتا ہے۔
یا۔۔
ہر وہ فرد جس کی دو نسلوں کی پرورش یا عمر کا بڑا حصہ ایسے ملک میں گزرا ہو جہاں کے قوانین سیکولر کی بجائے مذہب پر مبنی ہیں اس کے لیے compliance of Australian values لازم قرار دیا جائے۔
2۔ پچھلے مرحلے میں جن افراد کی شناخت ہو انہیں طویل اور مفصل ٹیسٹ میں بٹھایا جائے اور اس کے خیالات پرکھے جائیں جہاں اس کے مذہب کی وہ تمام ممکنہ interpretations جو host ریاست کی سیکولر اقدار سے متصادم ہوں۔ اس بات کی یقین دہانی کروائی جائے کہ اس ٹیسٹ میں دستیاب سوالات جمود کا شکار نہ ہوں تاکہ امگریشن امیدوار کے حتیٰ الامکان حقیقی خیالات ریکارڈ کیے جا سکیں۔
3۔ اس امتحان کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر امگریشن کے امیدوار کا اسی کے خرچے پر ماہر نفسیات سے ایک طویل انٹرویو لیا جائے جس میں سوالات کے جوابات کی روشنی میں امیدوار کی psychological assessment ہو۔ ہر وہ بندہ جو سیکولر معاشرے کی اقدار کے لیے مناسب نہ ہو اسے ریاست کی سرحدوں کے اندر قدم رکھنے سے پہلے ہی باہر کر دیا جائے۔
اب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس تجویز کے پیچھے کیا سوچ کارفرما ہے۔
دیکھیے، ہر "اچھے مسلمان" کو جو ایک سے زائد نکاح پر مکمل یقین رکھتا ہو، 18 یا 16 ایج آف کانسینٹ کو ماننے کی بجائے ماہواری کی بنیاد پر نکاح قائم کرنے کا رسیا ہو، یھود و نصاریٰ کو دشمن سمجھتا ہو، غیر اسلامی معاشرے میں اسلامی طرز حکومت کا حامی ہو، اپنی خواتین کو زبردستی شٹل کاک برقعہ پہنانے کو فرض سمجھتا ہو، کفار کے خلاف نفس اور قلم کے بعد بندوق، چاقو کے پھل یا پھر گاڑی کو بطور اسلحہ استعمال کرنے پر یقین رکھتا ہو۔۔ ایسے "اچھے مسلمان" سے ہم اتنی تو امید رکھ ہی سکتے ہیں کہ روافض کے تقیے سے گھن کھا کر سچ ہی بولے گا؟ ہے ناں؟ تو ایسے "اچھے مسلمان" کو تو اصولی طور پر اول تو دار الکفر سے ویسے ہی دور رہنا چاہیے اور بالفرض اگر شدید مجبوری میں بارلے ملک جا کر سیٹل ہونے کا بار اٹھانا بھی پڑے تو کم از کم اپنے نظریات و عقائد کا سچا سچا اظہار تو کرنا ہی چاہیے۔ نہیں؟
سچ نہ بھی بولیں تو سائیکالوجسٹ اخیر ررام گٹ ہوتے ہیں، وہ سچ نکال ہی لیں گے۔
اب یہ تو نہیں ہو سکتا ناں کہ سیکولر ممالک آپ کو ڈائیورسٹی کے نام پر اپنے ملک میں بلائیں اور آپ تقویٰ کالج اور اس کے برابر مسجد بنا کر وہاں زمینیں خریدیں اور اچھے داموں ہم مذہبیوں کو بیچ کر آسٹریلیا کے اندر ایک چھوٹا سا یمن بنا لیں، پھر اسے توسیع دیتے رہیں اور ایک وقت پر پہلے سے مقیم آبادی کو یہاں سے دور جانے پر مجبور کر دیں اور پھر کہیں جزاک اللہ خیر برائے ڈائیورسٹی؟
بھئی جب آپ کی اقدار دار الکفر سے ہٹ کر ہیں اور انہیں تبدیل کرنا گناہ ہے تو دار الکفر جانا ہی کیوں؟ افغانستان کا رخ کیجئے۔ الحمد للہ دولت الاسلامی افغانستان ایک شرعی امارت ہے، آپ کو کھلے دل سے بانہیں کھولے مرحبا کہتی ہے، اسرائیل کے بعد پہلی ریاست ہے جو اپنوں کو پیار بھری چمیاں دیتی ہے، وہاں کا رخ کیونکر نہ ہو؟ چار شادیاں بھی آسان ہوں گی، ماہواری کے فوراََ بعد نکاح بھی جائز و قانونی، پردے کا مکمل اہتمام، پری انسٹالڈ شریعت اور جہاد کے مواقع الحمد للّٰہ بے شمار۔
دیکھیے۔۔ منافقت گناہ ہے۔ اگر آپ اچھے مسلمان ہیں تو آپ کو دارالکفر سے دور اور دارالایمان کے اندر رہنا چاہیے، یا کم از کم اگر دارالکفر جانا بھی پڑے تو حق سچ بیان کرتے ہوئے جانا چاہیے۔
نہیں؟