1. ہوم
  2. کالمز
  3. معاذ بن محمود
  4. یہ نوبت کیوں آئی؟

یہ نوبت کیوں آئی؟

میں ان تمام احباب کا احترام کرتا ہوں جو تب بھی نوشتہ دیوار پڑھنے کی اہلیت رکھتے تھے، اب بھی رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان کی جانب سے کڑوی بات قیمہ بھرے کریلوں کے کریلوں کی طرح کڑوی تو لگتی ہے مگر بری نہیں لگتی۔

غیر جانبداری اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مگر وہ لوگ جب بکواس کرتے دکھائی دیتے ہیں جن کی زندگی کا واحد مقصد ایک عدد ہینڈسم کو تخت پر بٹھانا ہے تو دل میں کہیں اسی ہینڈسم کو تختہ دار کا دیدار کرانے کی ایک مذموم سی خواہش ضرور جاگتی ہے، تاکہ حق پرستوں میں شامل ہونے والے بت پرست لامحالہ دل جلائیں۔

اس ملک میں جسٹس قیوم بھی گزرا ہے، افتخار چوہدری بھی، ثاقب نثار بھی اور عطاء بندیال بھی۔ ان تمام پر جو الزامات تھے ان سے ملتے جلتے الزام آپ کو امریکی ججوں پر بھی مل جائیں گے۔ تو پھر نیا کیا ہوا؟

میں اپنی سوچ سامنے رکھ رہا ہوں۔ یقیناً اس سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور یہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے البتہ سنجیدہ الفاظ اور مناسب طریقے سے سقم کی نشاندہی درکار ہوگی۔

چور دروازے یا لوپ ہولز ڈھونڈنے اور ان کے ذریعے نقب لگانے کا عمل ہر جگہ ارتقاء کے سفر میں ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کی دو مثالیں دیکھ لیں۔ امگرینٹس آسٹریلیا پہنچتے تھے، ان کا ایک قابل ذکر حصہ جو حرام خوری کی لت میں مبتلا رہتا ہے پہلے سال ہی بے روزگاری اور کمر کے درد کا بہانہ کرکے ٹیکس بینیفٹ کے نام پر ریاست کی بھیک پر پلنا شروع ہوجاتے تھے۔ یہ ایک چور دروازہ تھا۔ ریاست کو ان کا حرومی پن سمجھ آیا اور پھر قانون بنا دیا کہ شروع کے دورانیے میں بھیک نہیں ملا کرے گی۔ اس کے بعد جو ملے گی وہ بھیک نہیں ہوگی تم جتنا ٹیکس دو گے اسی کے تناسب سے کچھ حصہ واپسی مل جائے گا وہ بھی اگر تمہاری آمدنی ایک مخصوص ہندسے سے نیچے ہو تب۔ بے روزگار ہو، کمر ٹوٹ گئی ہے تو پکڑو، اتنا دیں گے جس میں تم بس زندہ رہ سکو۔ کیش پر ملازمت دینے کے ہر ممکنہ دروازے بند۔

اسی طرح پہلے پہل حرام خور آسٹریلیا حاضری لگا کر واپس پاکستان چلے جاتے اور وہیں گزر بسر کرتے۔ ریاست نے اس پر بھی قانونی قدغن لگا دی کہ اتنی مدت تک باہر رہے تو ریاست مالی معاونت نہیں کرے گی۔ یوں چور دروازے کی چوڑائی لمبائی کو طرح کم کر دیا گیا۔ ایسا نہیں کہ چور دروازے بالکل بند ہو گئے، ہاں مگر ان کا استعمال کافی حد تک مشکل اور اس سے حاصل ہونے والا فائدہ کم ہوگیا۔ حرام خور چور دروازے اب بھی ڈھونڈتے ہیں۔ مل بھی جاتے ہیں۔ یہ کشمکش البتہ ہمیشہ جاری رہے گی کیونکہ ایک جانب ریاست اور عوام کی فلاح بطور نیت مطلوب ہے تو دوسری جانب ٹیکس ادا کرنے والوں کے نقصان کی قیمت پر ذاتی فائدہ۔ لگاتار بہتری یا continual improvement ایسے ہی چلتی ہے۔

نوٹ کرنے والی بات البتہ کم سے کم ایک فریق کا عوام کی فلاح پر مبنی نیت کا پایا جانا ہے۔

پھر وہ معاملہ آتا ہے جہاں عوام کی فلاح مطلوب نہ ہو بلکہ دو فریقین کا ذاتی یا ادارتی مفاد کی خاطر چور دروازے ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ یہاں continual improvement کا تصور نافذ العمل نہیں ہوتا۔ دو فریقین کی چپقلش میں جب چور دروازے ڈھونڈے جاتے ہیں تو بیشک انہیں جتنا مرضی عوامی مفاد میں پیش کرنے کی کوشش کر لی جائے، جہاں خارش نہ ہو رہی ہو وہاں بلاوجہ کھجانا بلکہ کھجا کھجا کر کھرنڈ پیدا کر دینا ہمیشہ ناپسندیدہ عمل ہی رہتا ہے۔

عمر عطاء بندیال تک معاملات فرد کی حد تک بگاڑ تک محدود تھا۔ اس کے بعد البتہ فوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور پارلیمان۔۔ ان اداروں میں ایک فریق نے منظم systematic طریقے سے اپنے مفادات حاصل کرنے شروع کر دیے۔ "ہائے رافعہ" سے لے کر جرنل فیض کی بعد اس ریٹائرمنٹ منظم کاروائیاں نہ ہوتیں تو اگلوں کو منظم طریقے سے پٹہ ڈالنے کی شاید ضرورت نہ پڑتی۔ دو بندوں کا تنازعہ ہو تو ایک بندے سے یہ امید رکھنا کہ یسوع مسیح کی تعلیمات پر مبنی ردعمل دے گا، ایک احمقانہ اور زمینی حقائق سے متضاد سوچ ہے۔ ایک فریق اگر منظم طریقے سے اپنے زمینی خدا کے حق میں کاروائیاں کر رہا ہو تو دوسرا فریق جو اسی زمینی خدا کو زمینی ابلیس سمجھتا ہو، جواب میں جمہوریت کے تقدس کے نام پر ردعمل دینے سے گریز بالکل نہیں کرنا چاہیے۔

پہلا تھپڑ مارنے والے کو جواباً دو تھپڑ لگنے چاہیے ہیں، پہلا بطور مناسب و متوازن جواب جبکہ دوسرا بطور بلاوجہ چل کا جواب۔ منصور منیب ہو یا اطہر من اللہ، کوئی بھی اپنی اصل میں اپنے ماضی کی بنیاد پر جمہوریت اور عدلیہ کا محافظ نہیں رہا۔ آپ نے دستیاب آئین میں دستیاب چور دروازے جمہوری روح کے خلاف استعمال کرنے کا پورا زور لگایا، اگلوں نے اسی چور دروازے کا غیر جمہوری استعمال کرتے ہوئے آپ کی منظم کوشش کو ایک اور منظم کوشش کے ذریعے ناصرف صفر سے ضرب دیا بلکہ آپ کو اپنے مقابلے میں زیادہ، بہت ہی زیادہ کمزور کر ڈالا۔ اتنا کہ طاقت کا توازن نامی شے آج کی تاریخ میں ختم ہوچکی ہے۔

نقصان کس کا ہوا؟

سول سپریمیسی کے نام پر برائے نام جو بطور optics کچھ منحنی سا نظر آتا تھا، اس کے خاتمے کی صورت میں جمہوریت کا، جمہوری نظریات کا۔ حق پسندی اور جمہوریت کے نام پر جن لوگوں کے آلۂ تناسل "مردِ آہن کا ہر لفظ آئین ہوگا" اور "میں عشق عمران میں مارا جاؤں گا" سن کر آبدیدہ ہوجاتے ہیں، ان کی اس موقع پر گھٹی گھٹی سسکیاں سن کر بہت تسکین حاصل ہوتی ہے۔ یہ لوگ لاکھ جمہوریت تو سول سپریمیسی کا راگ الاپتے رہیں، بہرحال ان کی آواز اور ان اصول پسندوں کی آواز میں تفریق لازمی رہنی چاہیے۔

ان کا مقصد آج بھی "مردِ آہن کے ہر لفظ کو آئین" بنانا ہے۔ یہ فاشزم۔۔ فکری طور پر اس فاشزم سے کہیں زیادہ بدتر ہے جو جرنل عاصم منیر اور اس کا موجودہ سیٹ آپ اس وقت دکھا رہا ہے۔ ہمارے پاس "چوائس" کی لگژری نہیں ہوتی۔ ہمیں ہمیشہ دو ابلیسوں میں سے ایک کا انتخاب دیا جاتا ہے۔ بڑے اور چھوٹے ابلیس کے اشتراک سے جو بگاڑ پیدا ہوگا وہ اس بگاڑ سے کہیں زیادہ تیز و بدتر ہوگا جو بڑے ابلیس اور چھوٹے ابلیس کی لڑائی سے سامنے آرہا ہے۔

بگاڑ البتہ طے ہے، کہ مفاد عوام کا نہیں، ہر دو فریق کے نزدیک اپنا ہی مقدم ہے۔ ایسے میں continual improvement بھول جائیے، incremental chaos کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیے۔

یہ نوبت کیوں آئی؟

اس لیے کہ یوتھیوں کا زمینی ابلیس مل کر ساتھ چلنے کی اہلیت سے قاصر تھا، ہے اور رہے گا۔ نیز۔۔ منظم حرامی پن کا آغاز کرنے والوں کی جانب سے اسی منظم حرامی پن کے اگلے مرحلے پر چیخیں مارنا۔۔ عین فطری اور متوقع ہے۔ باقیوں کا مجھے نہیں پتہ، میں البتہ ان گھٹی گھٹی سسکیوں اور اصول پر قائم رہنے والوں کے مابین تفریق رکھنے کا قائل ہوں۔ یوتھیوں کو اصول پسند سمجھنا یا اصول پسندوں پر یوتھیا ہونے کا الزام لگانا ہر صورت نامناسب ہے۔

اور اس تفریق کا بہترین طریقہ اصول پسندوں اور یوتھیوں کو دیے جانے والے ردعمل کے صورت میں ہمیشہ واضح رہنا چاہیئے۔ نیز۔۔ کوئی یوتھیا کسی استعفے کو لے کر ر والا رونا روتا نظر آئے تو اسے بندیال و ثاقب نثار یاد دلاتے ہوئے اس استعفے کی بتی بنا کر واپس حق دار مقام پر دے دینی چاہیے۔

صدق اللہ العظیم