ہم پہ ہے گر یار اپنا مہرباں
کون آئے گا بے چارہ درمیاں
ہے وہی محبوبِ فطرت بے مثل
جس کے سینے میں ہے اک قلبِ تپاں
اپنے رب سے مانگ ذرہ عشق کا
مانگ لیکن ساتھ ہی رب کی اماں
دیدہِ بیدار سے دیکھے اگر
ذرے ذرے میں خدا کے ہیں نشاں
دوست کی ہم کو توجہ چاہئے
فکر کیا ہے گر عدو سارا جہاں
اس کی گہرائی کو پا سکتا ہے کیا
بحرِ دل انسان کا ہے بیکراں
کر دو کم احمد تم سامانِ سفر
کیوں اٹھائے پھرتا ہے بارِ گراں