اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بہت سارے راستے ہیں، مگر ان سب میں سب سے عظیم، پُراثر اور دائمی راستہ خدمتِ خلق ہے۔ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی زندگی انسانیت کے لیے وقف ہوتی ہے۔ ان کے کردار، خلوص، اخلاق اور بےلوث خدمت کو دیکھ کر دل سے بے ساختہ نکلتا ہے: یہی لوگ معاشرے کے اصل ہیرو ہیں۔
خدمتِ خلق، کے لغوی معنی مخلوقِ خدا کی خدمت کرنا ہے، صرف مالی مدد کرنا ہی خدمت خلق نہیں ہے، بلکہ کسی کی عیادت کرنا، کسی کو ہنر سکھانا، کسی کو تعلیم دینا، کسی کو مفید مشورہ دینا، کسی کے دکھ دردمیں شریک ہونا، کسی کے لئے دعا کرنا، چرند پرند کے لیے خوراک کا، پانی کا، سائے کا انتظام کر دینا بھی خدمت خلق میں شمار ہوتا ہے اور خدمتِ خلق کے لئے مال خرچ کرنے والوں کو تو اللہ تعالیٰ بے حد پسند فرماتا ہے، ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتا ہےاور خرچ کرنے والے کے مال کو کئی گنا بڑھا کر واپس کرتا ہے، اس سے رب تعالیٰ کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ انسان کو ذہنی اور قلبی سکون بھی نصیب ہوتا ہے اور ہمارا دین اسلام بھی خیر خواہی، امن و سلامتی اورانسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے۔
بعض علماء کے نزدیک عبادت کا خلاصہ دو چیزوں میں ہے ایک امر الٰہی کی تعظیم اور دوسرا خلق خدا پر شفقت یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں حقوق العبادپورا کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، چناں چہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: "اور اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، ناداروں، رشتے داروں، ہمسایوں، اجنبی ہمسایوں، پاس بیٹھنے والوں، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں، سب کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ بےشک اللہ تکبر کرنے والے، بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا"۔
آج بھی ہمارے معاشرے میں کچھ افراد خدمتِ خلق کی ایک تابناک مثال ہیں۔ ایسی ہی ایک روشن مثال سردار شبیر عباسی صاحب ہیں، جو اس وقت سیکشن آفیسر، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن، آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ وہ اس سے قبل بھی مختلف محکموں میں حسنِ سلوک، دیانت داری اور فرض شناسی کے ساتھ خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ شبیر عباسی صاحب کا اندازِ گفتگو، لوگوں سے خوش دلی سے پیش آنا، مسائل کو سنجیدگی سے سننا اور بساط سے بڑھ کر مدد کرنا، ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکا ہے۔ وہ صرف دفتر کے آفسر نہیں، بلکہ دلوں کے قائد ہیں۔ ان کا طرزِ عمل اس بات کا غماز ہے کہ منصب کی اصل عظمت، انسانیت کی خدمت میں ہے۔ یہ ان کی نیک نیتی کا ہی اثر ہے کہ ان کا نام آتے ہی لوگوں کے لبوں پر دعائیں اور دل میں احترام آ جاتا ہے۔ کیونکہ اصل انسان وہی ہے جس کی عدم موجودگی میں بھی لوگ اس کی تعریف کریں۔ "
خُدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا، جسے خُدا کے بندوں سے پیار ہوگا
مخلوق سے حسن سلوک کوئی معمولی بات نہیں بلکہ انسانوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسانوں کی مددکے عمل کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جا تا ہے لیکن دین اسلام نے خدمتِ انسانیت کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یکساں صلاحیتوں اور اوصاف سے نہیں نوازا بلکہ اُن کے درمیان فرق وتفاوت رکھا ہے اور یہی فرق و تفاوت اس کائنات رنگ و بو کا حسن و جمال ہے۔ وہ رب چاہتا تو ہر ایک کو خوبصوت، مال دار اور صحت یاب پیدا کر دیتا لیکن یہ یک رنگی تواس کی شانِ خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیا ہے، شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا۔
اُس علیم و حکیم رب نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اُسکا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے۔ وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معاشرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی مدد اُن کے وہ بھائی بند کریں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو۔ مسلم شریف کی روایت ہے: "مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جوا س کے کنبے کے لئے زیادہ مفید ہو"۔
سبحان اللہ اس رب کو اپنے بندوں سے اس قدر محبت ہے کہ وہ ان کو اپنا کنبہ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ سبوح اور قدوس ذات ہے، اسے کسی کنبے کی ضرورت اور احتیاج ہرگز نہیں۔ انسانیت کی خدمت کے بہت سے طریقے ہیں۔ بیوائوں اور یتیموں کی مدد، مسافروں، محتاجوں اور فقرا اور مساکین سے ہمدردی، بیماروں، معذوروں، قیدیوں اور مصیبت زدگان سے تعاون یہ سب خدمت خلق کے کام ہیں۔ فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے عرش کا سایہ نصیب فرمائیں گے جو میرے کسی امتی کی حاجت پوری کرے گا"۔
صحیح الجامع میں رسول ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جو انسانوں لئے زیادہ نفع بخش ہوں۔ اعمال میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جن سے مسلمانوں کو خوشیاں ملیں، یا ان سے تکلیف دور ہو۔ یا ان سے قرض کی ادائیگی ہو یا ان سے بھوکوں کی بھوک دور ہو۔ بے شک بد خُلقی اعمال کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو برباد کر دیتا ہے۔ جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے چلا یہاں تک کہ وہ ضرورت پوری ہو جائے اللہ تعالیٰ اس دن اسے ثابت قدم رکھے گا جس دن قدم ڈ گمگا رہے ہو ںگے۔
سردار شبیر عباسی صاحب کی سادہ مزاجی، عاجزی اور دردِ دل اُنہیں اس معاشرے میں ایک مثالی شخصیت بناتی ہے، ان کی خدمتِ خلق کی گواہی ہر وہ شخص دیتا ہے جس سے ان کا واسط پڑا ہو۔ ایسے لوگ قوم کا سرمایہ اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہوتے ہیں۔ ایسی ہستیاں کسی ایک شعبے یا طبقے تک محدود نہیں ہوتیں، بلکہ وہ معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک مثال، ایک محرک اور ایک سمت ہوتی ہیں۔ یہی افراد قوموں کی پہچان بنتے ہیں، تاریخ میں اپنا نام ثبت کرتے ہیں اور آنے والوں کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں۔
ملک و ملت کے لیے ایسی شخصیات یقیناً ایک قیمتی سرمایہ ہیں، جن پر نہ صرف ہمیں فخر ہے بلکہ ان کی جدوجہد کو زندہ رکھنا ہمارا قومی و اخلاقی فرض بھی ہے۔