1. ہوم
  2. کالمز
  3. عابد ہاشمی
  4. بے روزگاری کا خاتمہ مگر کیسے؟

بے روزگاری کا خاتمہ مگر کیسے؟

ہمارے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہیں۔ ایسے نوجوانوں سے جڑے کئی اور افراد بھی شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ بے روزگاری اور غربت کی چکی میں پستے نوجوان نسل کے لیے مستقبل کی راہیں تاریک ہو رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر 1 کروڑ 35 لاکھ سے زائد پاکستانی دنیا کے 50 ممالک میں قیام پذیر ہیں، جن میں سے 96 فیصد پاکستانی عرب ممالک میں کام کاج کرکے اپنا روزگار کما رہے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف اکثریت کے پاس موبائل فون بھی ہیں اور ان کا استعمال بھی جاری رہتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں موبائل فون، انٹرنیٹ کا مثبت استعمال کرکے نہ صرف اپنے تعلیمی و دیگر اخراجات بآسانی پورے کئے جاتے ہیں بلکہ کئی باقی افراد کو بھی سہارا مہیا کیا جاتا ہے۔ ہمارے نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں تھامے ملازمت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں لیکن ہنر سیکھنے کو برا سمجھتے ہیں۔ اگر یہی نوجوان دوران تعلیم اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق کوئی ہنر یا ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کرلیں تو دوران تعلیم اور بعد از تعلیم کوئی جز وقتی ملازمت کرکے اپنا جیب خرچ نکال سکتے ہیں۔ جیسے آپ ٹائپنگ کی مہارت حاصل کرلیں تو عین ممکن ہے کسی بھی دفتر میں آفس اسسٹنٹ، کلرک، ٹائپسٹ کی نوکری کرتے ہوئے بغیر کسی پر بوجھ بنے اپنی حتمی منزل کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔

دُنیا میں آج آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کا ایک طوفان برپا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی، جیسے سافٹ ویئرز اور ٹولز سامنے آ رہے ہیں جن سے عنقریب بہت سے شعبوں میں انسانوں کی ضرورت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ مستقبل میں شاید کسی کو بھی فوٹو گرافر کی ضرورت نہیں پڑے گی، AI ٹولز کی مدد سے اپنی ڈیمانڈ کے مطابق تصاویر مل جائیں گی۔ اشتہارات کے لیے ماڈلز، میک آپ آرٹسٹ کی ضرورت بھی ختم ہو جائے گی۔ AI کی مدد سے کسی بھی پروڈکٹ کا اشتہار بنایا جا سکے گا جبکہ ماڈلز کی جگہ ڈیجیٹل چہرے اس کام میں استعمال ہوں گے۔ ایسے میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس سب میں ہمیں کیا کرنا ہے۔

آج دُنیا میں متعدد ایسے شعبے ہیں جہاں ڈگریوں کے بجائے ہنرمندی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ متعدد ایسے ہنر بھی دُنیا میں ابھرے ہیں جو نیم تعلیم یافتہ نوجوان بھی بہ آسانی سیکھ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ای روزگار، ایک بہترین روزگار کی شکل ہے۔ نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا ہنرمند ہونا ایک ڈگری یافتہ ہونے سے بہتر ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی کی اس دوڑ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نوجوان کے پاس کسی خاص شعبے میں مہارت کی ڈگری ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی مہارت نہ ہو تو ڈگری بغیر پانی کے گلاس کی طرح خالی ہوگی۔

مہارت اور ڈگری ایک بہترین زندگی گزارنے کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی سے کسی خاص شعبے میں تعلیم یافتہ ہونے کی سند رکھنے والی ڈگری ماہرین تعلیم کی طرف سے جاری کردہ محض ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، جبکہ ہر ہنر مند فرد ڈگری یافتہ نہیں ہوتا، پھر بھی بہت سارے کاموں میں ماہر ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی ڈگری ہولڈر ہمیشہ عملی طور پر ماہر نہیں ہوتا ہے، دیکھا جائے تو اس وقت سب سے زیادہ تعلیمی ڈگریاں رکھنے والے افراد بے روزگار ہیں اور کم تعلیم یافتہ افراد جن کے پاس کسی نوعیت کا ہنر یا مہارت ہے تو وہ برسرِ روزگار ہیں۔

کارخانہ دار کہتے ہیں انہیں اعلی تعلیم کی بجائے ہنر مند ورکرز کی تلاش رہتی ہے۔ مہارت کی تربیت ترقی کا راستہ ہے۔ اس وقت دنیا کی نام ور ٹیکنالوجی کمپنیوں، اعلیٰ درجے کے اداروں میں ملازمت کے لیے باضابطہ یا روایتی تعلیمی نظام کو پسِ پشت رکھ دیا گیا ہے، یہاں روایتی ڈگری رکھنے والے افراد کی نسبت ایسے لوگوں کو نوکری کے لیے پسند کیا جاتا ہے جو ٹیکنالوجی کے مخصوص شعبہ جات میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہنر مند ہونے کے مواقع بھی وسیع ہو گئے ہیں۔

موبائل ریپیئرنگ، انٹرنیٹ بلاگنگ، ٹرانسلیشن، کمپیوٹر ہارڈ ویئر ریپئرنگ وغیرہ کے ہنر میں یکتا ہو کر اچھی خاصی آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے، ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی قابلیت میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ڈیٹا اینالیٹکس، مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ اور روبوٹکس جیسے ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی تبدیلی کے ساتھ، دنیا اس جاب کے لیے کسی ماہر فرد کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کو سوچنے پر مجبور کیا جائے کہ تعلیم کے ساتھ ہنر وصلاحیت پر توجہ دیں۔

یقیناََ نوجوان اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی اپنے لیے معاشی مواقع تراش سکتے ہیں مگر مناسب تربیت اور رہنمائی کا فقدان اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ڈیجیٹل ورلڈ سے منسلک چند لڑکیاں اور لڑکے "سوشل میڈیا انفلوئنسر" بن کر اور چند ہزار روپے کے عوض پروڈکٹس کی پروموشنز کرکے سمجھ رہے ہیں کہ وہ کامیاب ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تعلیم کے ساتھ ہنر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے یہاں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔

جدت کے وقت میں جہتوں اور طلبا کی ذہنی صلاحیتوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ پیداواری صلاحیّت بڑھانے کے لیے ہر فیلڈ میں ہنرمندی اور مہارت کی ضرورت ہے یعنی زراعت، تعمیرات، سولر انرجی، صحت، آئی ٹی وغیرہ۔ بلاشبہ مقابلے کے اس دور میں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے توفنّی تعلیم و تربیّت کے بغیرممکن ہی نہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم صرف ڈگری کے حصول سے ہی اپنےروشن مستقبل کا خواب پورا ہونے کا انتظار کرتے ہیں یا ہنر مندہو کر اپنی راہیں خود متعین کرتے ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیم انسان کو شعور اور معاشرتی آداب سکھا کر معاشرے میں رہنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جس نے ارسطو کو فلسفے کا بادشاہ بنادیا، جس نے سائنس کو نیوٹن، جیسا شخص دیا۔ وہی تعلیم ابولکلام آزاد، علامہ اقبال اور قائداعظم کے عروج وکمال کا سبب رہی، تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ صرف وہی اقوام دنیا میں اپنا وجود بر قرار رکھ سکی ہیں، جنہوں نے تعلیم کی اہمیت کو سمجھا اور اپنی نئی نسل کو اس زیور سے آراستہ کیا۔ موجودہ دور میں تعلیم اور ہنر کو کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی میں جو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن تعلیم کے ساتھ ہی تربیت اور ہنرمندی کا فروغ وقت کا تقاضا ہے اور اسی صورت میں ہم بے روزگاری میں کمی لا سکتے ہیں۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔