1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ناصر عباس نیّر/
  4. میں اس کوشش میں ہوں کہ مفید نہ بنوں

میں اس کوشش میں ہوں کہ مفید نہ بنوں

کچھ کہانیاں کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ زمانے کی کوئی آندھی، ان کی دانش کا چراغ نہیں بجھاتی۔ ایسی ہی ایک چینی حکایت ہے۔ یہ حکایت چوانگ سو سے منسوب ہے جو تاؤ مت کے درویش تھے۔ اس حکایت کا موضوع ہے: جو جس قدر مفید ہے، اسی قدر نظروں میں ہے، حریصانہ، حاسدانہ، مخالفانہ، سرمایہ دارانہ نظروں میں۔ نیز کائنات میں ایک شے، دوسری شے پر پر کیسے کوئی فیصلہ دے سکتی ہے؟

اس حکایت کو پہلی بار سہیل احمد خاں کے ایک مضمون میں پڑھا تھا۔ بعد میں اس کے کچھ انگریزی متن دیکھے۔ حکایت کا بنیادی ڈھانچہ یکساں مگر تفاصیل میں اختلاف ہے۔ میں اسے اپنے لفظوں میں بیان کررہا ہوں۔

شی نام کا ایک بڑھئی تھا۔ وہ اپنے فن میں کامل تھا۔ اپنے فن میں کامل لوگ، خوش اعتقاد بھی ہوا کرتے ہیں۔ شی بھی یہ خیال کرتا تھا کہ وہ سب جانتا ہے۔ درختوں کو اور لکڑی کی چیزیں بنانے کو۔

وہ اپنے ایک شاگرد کے ساتھ سفر کررہا ہے۔ راستے میں، ایک بستی آتی ہے۔ بستی کے ایک مزار کے ساتھ، ایک پہاڑی پر بلوط کا درخت ہے۔ یہ درخت اس قدر بڑا ہے کہ کئی ہزار جانوروں کو سایہ، مہیا کررہا ہے۔ اس کی سب سے نچلی شاخیں، زمین سے اسی فٹ اونچی ہیں۔ اس کےپاس سے جو بھی گزرتا ہے، وہ اسے حیرت سے دیکھتا ہے مگر شی اس پر ایک نگاہ غلط انداز بھی نہیں ڈالتااور اپنی منزل کی جانب گامزن رہتا ہے۔

اس پر جلال شجر نے شی کے شاگرد پر سحر طاری کردیا ہے۔ وہ اسے دیکھتا رہتا ہے۔ شی آگے جاچکا ہے۔ شاگرد بھاگ کر شی کے پاس پہنچتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ میں نے اس جیسا عظیم الشان درخت کوئی دوسرا نہیں دیکھا، لیکن آ پ نے اس پر ایک نظر تک نہیں ڈالی۔ یہ کیا راز ہے؟

شی، شان بے نیازی سے کہتا ہے۔ اسے بھول جاؤ۔ اس کے بارے میں اور کچھ مت کہو۔ یہ ایک بے کار و بے مصرف و بے ثمر درخت ہے۔ اس سے اگر کشتیاں بنائی جاتیں تو وہ ڈوب جاتیں۔ تابوت بنائے جاتے تو گل سڑ جاتے۔ پیالے بنائے تو فوراً شکستہ ہوجاتے۔ اگر اس سے دروازے بنائے جاتے تو ان میں سے پانی رسنے لگتا۔ اس سے کھمبے بنائے جاتے تو انھیں دیمک کھاجاتی۔ اس کی چوب کسی کام کی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اس قدر پرانا ہے۔

اسی شب، درخت، شی کے خواب میں ظاہر ہوتا ہے اور اس کی خوش اعتقادی کے غبارے سے ہوا نکالتا ہے۔ شاہ بلوط، شی سے کہتا ہے: حضرت! میرا تقابل کس سے کررہے تھے۔ کیا تم میرا مقابلہ سیب، ناشپاتی، سنگترے جیسے پھل دار، مفید درختوں سے کررہے تھے؟ تم نہیں جانتے کہ جب ان کے پھل پک جاتے ہیں تو ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

ان کے پھل توڑ لیے جاتے ہیں۔ پھلوں پر پتھر مارے جاتے ہیں۔ شاخیں بے دردی سے کھینچ لی جاتی ہیں، اور انھیں ادھر ادھر پھینک دیا جاتا ہے۔ ان کی افادیت ہی انھیں سب مصائب کا شکار بناتی ہے۔ قدرت نے ان کی قسمت میں جتنی عمر لکھی ہوتی ہے، وہ غریب وہ عمر بھی بسر نہیں کر پاتے۔ وہ آدھے راستے میں لٹ جانے والے مسافروں کی طرح ہوا کرتے ہیں۔

جہاں تک میرا معاملہ ہے، میں ایک لمبے عرصے سے اس کوشش میں ہوں کہ میں مفید نہ بنوں۔ یہ مفید نہ بننا میرے لیے بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ اگر میں دوسرے درختوں کی مانند مفید ہوتا تو کیا میں اتنا بڑا ہوپاتا اور اتنی لمبی عمر جی پاتا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ میں اور تم دونوں شے ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے کہ ایک شے دوسری شے کی مذمت کرے۔ تم بھی تو ایک بے کار انسان ہو جو مرنے کے قریب ہے۔ تم کیسے یہ فیصلہ دے سکتے ہو کہ میں واقعی ایک بے کار درخت ہوں؟

کیا درخت کو صرف ایک بڑھئی کی نظر ہی سے دیکھنا چاہیے؟

افتخار عارف کا شعر بھی یاد آتا ہے۔

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا