میں زندگی، اس کی کسی صورت، کسی مظہر اور اس کی کسی سچائی، خواہ وہ کتنی ہی ہیبت ناک ہو، اس سے گریز نہیں چاہتا۔
مجھ پر بزدلی اور افسردگی کے کئی لمحات آتے ہیں، میں زندگی سے شکوہ کناں بھی ہوتا ہوں، اپنے ساتھ روا رکھے گئے اس کے سلوک پر سیخ پا بھی ہوجایا کرتا ہوں، میں ہر سچائی کے بوجھ کو بھی محسوس کرتا ہوں اور اپنی کمر کو دہراہوتے بھی محسوس کرتا ہوں مگر میں خود سے کہتا ہوں: رسول، مت بھولو کہ زندگی، ایک عظیم الشان ندی ضرور ہے، مگر وہ صرف کوہستانی ہی نہیں، میدانی، ریگستانی، بیابانی علاقوں اور خرابوں میں بھی بہتی ہے۔
ہرجگہ اس کا طور ہی نہیں، اس کا پاٹ، اس کی روانی ورفتار، اس کی تاب وتوانائی اور اس کا ذائقہ بھی بدل جاتا ہے۔
میں خود کو یہ بھی یاددلاتا ہوں کہ زندگی کی ندی کا یہ سارا احوال، مجھ پر تنہائی ہی میں کھلتا ہے۔
جس وقت یہ ندی، کسی خرابے میں، محض ایک کھال کی صورت بہہ رہی ہوتی ہے، کیا اس مٹی کو جہاں یہ کھال بہہ رہا ہوتا ہے، یہ یاد ہوتا ہے کہ کوہستانی مقام پر اس ندی کا ذائقہ کیسا تھا؟
ندی کی یادداشت میں اپنے سب ذائقے محفوظ ہوتے ہیں، مگر جس مقام اور جس مٹی میں یہ ندی بہتی ہے، وہاں وہ اپنے پانی پر اپنے مقامی ذائقے کی موٹی تہ چڑھا دیتی ہے۔
مجھے یاد آتا ہے، میں نے ایک بار کوریائی ڈش کِمشی کھائی تھی۔ اس میں میٹھا، کڑوا، تلخ، کھٹا، نمکین۔۔ غرض کئی ذائقے گندھے تھے۔ میں آہستہ کھانے کا عادی ہوں۔ مچھلی کا ٹکڑا کھایا تو وہ کچھ میٹھا، کچھ نمکین، کچھ تلخ اور کچھ کھٹا سا محسوس ہوا۔
یہ سب ذائقے جدا جدا بھی تھے اور مل کر ایک نیا ذائقہ بھی تخلیق کررہے تھے، جسے کوئی نام دینا مشکل ہے۔ میں جیسے جیسے مچھلی کے ٹکڑے کو چباتا چلا گیا، آخر میں بس مچھلی کا ذائقہ رہ گیا۔ ذرا سا شیریں اور تھوڑا نمکین۔
زندگی کی ندی کا مقامی ذائقہ بھی اس مچھلی کے ذائقے کی مانند ہے۔
میں اپنی تنہائی میں، زندگی کی ندی کے سب ذائقے یاد کیا کرتا ہوں۔ یہ سب ذائقے کتابوں اور زبانی قصوں میں بھی کہیں کہیں درج ہوئے ہیں، سیر وسفر میں بھی مجھ پر کھلے ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ یہ سب میرے خون میں باقاعدہ رقم ہیں۔
خون میں لکھی تحریروں کو پڑھنا مشکل ہوا کرتا ہے۔
خون میں لکھی تحریریں، دنیا کی کسی زبان میں نہیں، خود زندگی کی اپنی زبان میں لکھی گئی ہوتی ہیں۔
زندگی کی اپنی زبان وہی ہے، جسے زندگی ہر لمحے خود تخلیق کرتی رہتی ہے اور زندگی کے ہر مظہر، جیسے مجھے، جیسے آپ کو زندگی اپنی سرگوشی میں، اپنی یہ زبان سناتی جاتی ہے اور وہ آپ کے خون میں رقم ہوتی جاتی ہے۔
زندگی کی یہ سرگوشی اسی وقت سنائی دیتی ہے، جب کوئی شور نہ ہو، کسی اور زبان کا، یہاں تک کہ خود زندگی کی ماضی کی کسی سرگوشی کا۔
زندگی۔۔ اصل، بے داغ، خود اپنے آپ سے معمور۔۔ ہر بار اپنا اظہار نئے رنگ، نئی آب وتاب اور کسی نئی، ان سنی راگنی نما سرگوشی کی صورت کرتی ہے۔
زندگی، اپنی نوآفریدہ سرگوشی میں، اپنی پرانی سرگوشیوں کی تحریروں کو خاموش رہنے کی تاکید کرتی ہے۔
زندگی سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ خود اس کی پرانی تحریریں، اس کی راہ میں حائل ہوسکتی ہیں۔
وہ اپنی تحریروں کو خود محفوظ کرتی ہے۔
لیکن وہ جانتی ہے کہ اس کی پرانی تحریروں کی تقدیر، اس کی نئی سرگوشیوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ یہی نئی سرگوشیاں طے کرتی ہیں کہ کس پرانی تحریر کو کب، کہاں بروے کار لانا ہے، کسے منبر پر بٹھانا ہے اور کسے کسی مقبرے میں حنوط کردینا ہے۔ کسے پڑھنا ہے اور اس کے حروف سے روشنی کشید کرنی ہے اور کسے محض یاد گار بنانا ہے اور کسے ابدی فراموشی کے سپرد کردینا ہے۔
زندگی کی رواں ندی میں مقبرے اور یادگاریں اور کھنڈرات نہیں ہوا کرتے۔ وہ ہمیشہ اس کے کناروں سے دور، ان جگہوں پر ہوا کرتے ہیں، جہاں کبھی یہ ندی بہتی تھی۔ پھر اس نے اپنا رخ بدل لیا۔ اپنے زمین وزمان بدل لیے۔
زندگی سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ایک وقت کی اس کی نوآفریدہ سرگوشیاں، خود اس کی نو ایجاد راگنیوں کے گلے کی پھانس بن جایا کرتی ہیں۔
میں زندگی کی نئی سرگوشیاں سنتے ہوئے، ان سچائیوں کو یاد کرتا ہوں اور نئی سرگوشی کو بےخلل انداز میں ظاہر ہونے دیتا ہوں۔
میں تنہائی میں پہلے سرگوشی سنتا ہوں، پھر اپنے خون میں لکھی تحریریں پڑھتا ہوں۔
میں نے اب تک یہی سمجھا ہے کہ خون میں لکھی تحریروں کو خون ہی پڑھ سکتا ہے۔
میرے دوست کہتے ہیں، رسول تم کبھی عجیب باتیں کہتے ہو، ہمیں سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
میرے پیارے دوستو! میں شاعر ہوں، مگر یہ بات کہ خون کی تحریر کو خون ہی پڑھ سکتا ہے، شاعرانہ نہیں ہے۔
یہ فلسفہ بھی نہیں ہے۔
یہ کوئی پہیلی بھی نہیں ہے۔
ایک سچ ہے، جسے میں نے تنہائی میں دریافت کیا ہے۔ تم اگر کبھی تنہائی اختیار کرو تو یہ سچ تم پر بھی بارش کی طرح برسے گا۔
سچ آدمی کا طبقہ دیکھتا ہے، نہ صنف، نہ عمر اور نہ اس کی نام وری وگم نامی اور نہ اس کی ماضی کی کوئی نیکی بدی۔ سچ کی بارش ہر اس شخص پر برستی ہے، جس کادل سچی پیاس سے بے حال ہو۔
سچ یہ ہے کہ تنہائی کنارہ نہیں ہے، جس پر کھڑے ہو کر زندگی کی ندی کو دیکھا جائے۔
تنہائی، زندگی کی رواں ندی ہی میں ایک پیدا ہونے والی، عجب لہر ہے۔
کنارے پر کھڑے ہو کر ہم آپ زندگی کی ندی کو کتنا دیکھ سکتے ہیں؟ صرف وہی حصہ جو سامنے سے گزرتا ہے اور پلک جھپکتے گزر جاتا ہے۔ پھر ایک نیا دھارا۔ تب ہم صرف ایک ایسی روانی کو دیکھتے ہیں، جو ابد کی طرف بہہ رہی ہے۔ ہم حال کے ایک لمحے کو ابد کی جانب لگاتار بڑھتا دیکھتے ہیں۔
ہم صرف بے ثباتی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ دکھی ہوتے ہیں، فلسفے تراشتے ہیں، اوربالآخر بے زار ہو کر، کناروں پر کھڑا ہونا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم ہر وقت اس جواز کو پلے باندھے رکھتے ہیں کہ زندگی کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ زندگی کے بارے میں اس طرح کے تصورات، دنیا سے اکتائے فلسفیوں کے پیدا کردہ ہیں۔
تنہائی کو کنارہ نہیں، لہر سمجھیں تو زندگی کی اصل ہم پر کھلتی ہے۔ پوری اصل نہ سہی، کم از کم وہ اصل جس کا گہرا تعلق خود ہم سے ہوتا ہے۔
لہر، جب ندی میں سے اٹھتی ہے تو وہ ندی سے الگ دکھائی دیتی ہے، مگر وہ ندی کا حصہ ہی ہوتی ہے۔ ندی کا سارا خروش، ساری خاموشی، سب ذائقے، اس لہر میں ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا اونٹ کی کوہان کی مانند، ندی کے بہاؤ سے الگ ہوجانا، ندی کو اوپر سے اور اندر سے بہ یک وقت دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔
لہر ہی ندی کو سمجھ سکتی ہے۔
اور خون ہی خون کے مسودوں کو پڑھ سکتا ہے۔
(زیر تصنیف میرا داغستانِ جدید سے اقتباس)۔