1. ہوم
  2. کالمز
  3. ناصر عباس نیّر
  4. جولیاں کی خانقاہ، بدھ، وجرہ پانی

جولیاں کی خانقاہ، بدھ، وجرہ پانی

آثار اور کھنڈرات، ہمارے تخیل کو سب سے زیادہ مہمیز کرتے ہیں۔ قدیم شکستہ دیواروں، خستہ دروازوں، آدھے ٹوٹے، آدھے سلامت مجسموں اور کمروں کو دیکھنا، ایک عجب تجربہ ہوا کرتا ہے۔

ہم محسوس کرتے ہیں کہ جیسے وقت اور تاریخ کے برباد آثار کو ہمارا تخیل از سر نو تعمیر کرنے لگا ہے۔ کچھ لوگ کھنڈرات سے عبرت پکڑتے ہیں، ہمیں پرانے زمانوں کی نسبت اور مقابل نئے نئے خیالات سوجھتے ہیں۔

عبرت کدے تو تاریخ کے صفحات میں جابجا ہیں۔

کچھ یہی تجربہ چند دن پہلے جولیاں کو دیکھنے سے ہوا۔ میرے ساتھ طاہرہ، علی اور اریب تھے۔

ٹیکسلا عجائب گھر سے چند کلومیٹر آگے، ہری پور جانے والی شاہراہ کے دائیں جانب، تھوڑے سے فاصلے پر ایک کوہستانی ٹیلا ہے۔ کوئی ڈھائی سو کے قریب سیڑھیاں، اس ٹیلے پر پہنچاتی ہیں۔ میدانی علاقوں کے رہنے والوں کے لیے یہ سفر صبر آزما اور اعصاب کا امتحان ہوتا ہے۔

کچھ لمحوں کے لیے یہ بات ذہن میں ضرور آتی ہے کہ بلندی کی خواہش کس قدر آسان ہے اور اس کی جانب سفر کس قدر دشوار ہے۔ یہ خیال بھی آتا ہے کہ جن لوگوں نے اس تنہا، آس پاس کی پہاڑیوں سے منقطع، الگ مقام پر موجود ٹیلے پر ایک خانقاہ اور مدرسہ قائم کیا تھا، کیا وہ واقعی بلندی و عظمت چاہتے تھے یا کچھ اور؟

اس کا جواب، اوپر پہنچتے ہی مل جاتا ہے۔ وہ بلندی سے زیادہ، خاموشی، امن اور اطمینان چاہتے تھے۔ جولیاں کی یہ خانقاہ ومدرسہ، کشن عہد میں بنا اور پہلی تا پانچویں صدی عیسوی تک برقرار رہا۔

دو ہزار برس گزر گئے۔ بہت کچھ بدل گیا۔ خانقاہ و مدرسہ اجڑ گئے، اس کی دیواریں شکستہ ہوگئیں، سٹوپا خستہ و شکستہ ہوگئے، بس آثار رہ گئے، جنھیں جان مارشل نے 1916ء میں کھدوایا، مگر وہ خاموشی، امن اور اطمینان کی فضا اب بھی موجود ہے۔

ہر طرح کی مداخلت، آدمی کے دل کے امن کی دشمنِ اوّلین ہے۔ یہاں کی فضا کی خاموشی میں کوئی آدمی حائل ہے نہ کوئی چیز۔ لوگ، باتیں، سماج، زمانہ۔ البتہ یہاں کے درختوں کی شاخوں کو گدگدانے والی ہوا، کوے، کوئل، چڑیاں، فاختائیں، گلہریاں ضرور موجود ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی مداخلت پسند نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سب، یہاں کی خاموشی اور امن کو تہس نہس نہیں کرتیں، انھیں زندگی سے لبریز کرتی ہیں۔ اس خانقاہ و مدرسہ کو قبرستان میں نہیں بدلنے دیتیں۔

دل کی خاموشی کا دوسرا نام، موت بہ ہر حال نہیں ہے۔

دل کی خاموشی اگر زندگی کے کسی عظیم سرچشمے تک نہ پہنچا سکے تو کس کام کی؟

اکثر لوگ جولیاں (جسے مقامی لوگ جائے ولیاں یعنی ولیوں کی جگہ بھی کہتے ہیں )کو قدیم یونیورسٹی کہتے ہیں۔

یونیورسٹی ایک جدید تصور ہے، یہ ایک سیکولر، آزادنہ بحث مباحثے اور علم کی مسلسل تخلیق اور پرانے علم کی لگاتار چھان بین کی "جگہ" ہے، جب کہ جولیاں کی اس عمارت کا فن تعمیر بتاتا ہے کہ یہ علم کی ترسیل اور عبادت کا مقام تھا۔

یہاں بدھ بھکشو، بدھ مت کی تعلیم حاصل کرتے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں باقی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ ہوسکتا ہے، ایسا ہو مگر مرکز میں بدھ اور اس کی تعلیم ہی رہی ہوگی۔

خاموشی و امن کے بعد دوسری چیز جو زائر کو فی الفور متوجہ کرتی ہے، وہ سادگی ہے۔ زیادہ تر سرمئی پتھروں کو کاٹ کر بنائی گئی یہ عمارت، بالکل سادہ ہے۔

اس کی دیواریں آرائش و زیبائش سے خالی ہیں، مگر بے حد مضبوط اور سخت۔ عمارت کو سادہ رکھنے کا مطلب، دھیان کو مداخلت سے محفوظ رکھنا تھا۔ عمارت مرکز نگاہ نہ بنے، مراقبے کو بے خلل جاری رکھنے کا مقام بنے۔

جولیاں میں اگر کہیں کچھ آرائش دکھائی دیتی ہے تو وہ رنگوں کی صورت نہیں، پتھروں کی تراشیدگی میں ہے۔

یہاں موجود بدھ کے مجسمے اور سٹوپا۔ بلاشبہ ان کی تعمیر میں پتھروں کے علاوہ دو چیزوں سے بے حد مدد لی گئی ہے: مذہبی عقیدت اور حس جمال۔ اکثر مجسمے، گندھارا کے مخصوص فن مجسمہ سازی کا مظہر ہیں۔ ان میں یونانی و مقامی عناصر کا عجب تال میل ہے۔ بدھ کے مجسموں کی تخلیق میں یہاں کے فن کاروں کا تخیل، اپنے کمال پر پہنچتا محسوس ہوتا ہے۔ اشوک کے زمانے میں خاص طور پر بدھ کے مجسموں میں فن اور مذہب کا غیر معمولی امتزاج دکھائی دیتا ہے۔

بدھ کے ان مجسموں میں، بدھ کی زندگی کے کئی مراحل دکھائے گئے ہیں۔

بدھ کہیں گہری گھنی خاموشی میں ہے، کہیں اس کے چہرے پر تبسم ہے۔

بدھ کا نروان اپنی جگہ، مگر بدھ کے سنگی مجسمے میں نور اور تبسم دکھانا، معجزہ فن ہے۔

یوں لگتا ہے کہ سرمئی پتھروں کو صورت ہی نہیں، زبان بھی مل گئی ہے۔ سب سے مشکل، سب سے نادر زبان: تبسم۔ قہقہ عام، تبسم خال ہے۔

جولیاں میں کئی سٹوپا موجود ہیں۔ ایک سٹوپا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں بدھ کی راکھ کا کچھ حصہ موجود ہے۔ اشوک نے بدھ کی راکھ، چندن کی ان لکڑیوں کی راکھ جو بدھ کی چتا میں کام آئی تھیں، یا بدھ کے زیر استعمال اشیا کو موریہ سلطنت میں کئی مقامات پر سٹوپا میں محفو ظ کیا تھا۔

سٹوپا جو پالی لفظ تھوپا سے ماخوذ ہے، جس کا لغوی معنی: مخروطی ڈھیر ہے، بدھ اور بدھستو وں کی مقدس باقیات کو محفوظ کرنے کے لیے تعمیر کیے گئے ہیں۔ تاہم جولیاں میں زیادہ تر سٹوپا وہ ہیں، جنھیں votive کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسا سٹوپا، جنھیں عقیدت مندوں نے، اپنی منتیں پوری ہونے پر، بہ طور نذرانہ تعمیر کروایا۔

ہر سٹوپا، بدھ کی کہانی اور دھرم چکر کو، بہ زبان سنگ بیان کرتا ہے۔ اس کا ہرحصہ: اندا، ہر میکا، یشتی، چترا، سب معانی کے حامل ہیں۔ یہ کہ دنیا میں آدمی کا ہونا، مصیبت زدہ ہونا ہے اور اس مصیبت ودکھ سے نجات، چار بنیادی سچائیوں کو اچھی طرح سمجھ کر اور آٹھ اصولوں پرعمل کرکے حاصل کی جاسکتی ہے، یہ معانی سٹوپا اپنی زبانی بیان کرتاہے۔ ہر سٹوپا اپنی خاموشی میں گویا ہے۔

بدھوں کے یہاں، زبان سے زیادہ امیج اہم ہے۔ ان کی نظر میں زبان، مسلسل ماضی کی طرف مراجعت کرتی ہے، جب کہ امیج، حال میں ایک غیر مشتبہ حقیقت کے طور پر موجود ہوا کرتا ہے۔

ہر سٹوپا بھکشو کے دھیان کو بھٹکنے سے بچانے کا کام کرتا۔ ایک ناقابل تردید حقیقت کے طور پر، اس کے روبرو موجود ہوا کرتا۔

اگرچہ خروشتی رسم الخط میں، کچھ تحریریں ان سٹوپا پر کندہ کی گئی ہیں، مگر وہ زیادہ تر سٹوپا نذر کرنے والوں سے متعلق معلومات ہیں۔

جولیاں میں یہ سب سٹوپا اور بدھ کے مجسمے، دو ہزار برس پہلے بھکشوؤں کی تعلیم کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ہمارے لیے اب وہ آثار ہیں، ہماری تاریخ و تہذیب کا ایک اہم باب ہیں، مگر چین، تھائی لینڈ، کوریا، جاپان، ویت نام، نیپال وغیرہ کے زائرین کے لیے، ایک نہایت متبرک و مقدس مقام۔ ان کے لیے کعبہ وکاشی، گویا۔

ایک ہی جگہ، مختلف آدمیوں کے لیے مختلف معانی کی حامل ہوا کرتی ہے۔ تاریخ اور عقیدہ جگہوں کی معنویت پر کس قدر اثر انداز ہوتے ہیں۔

یہیں بدھ کا یک ایسا مجسمہ بھی ایک دیوار میں نصب ہے، جس کی ناف میں سوراخ ہے۔ کہا جاتا ہے، اس کی ناف میں شہادت کی انگلی ڈال کر جو دعا مانگی جائے وہ پوری ہوتی ہے۔ تانترک مراقبے میں ناف، قوت وتوانائی، کا مرکز ہے۔

ہم نے بدھ کی ناف میں تھائی کرنسی کا ایک کرارا نوٹ دیکھا۔ جس طرح ہم مزارات پر پیسے نذر کرتے ہیں۔

میں نے تخیل میں بدھ کو مسکراتے دیکھا۔ یہ مسکراہٹ، نروان والی نہیں تھی۔

ایک بند کوٹھڑی میں بدھ کا شاہکار مجسمہ تھا، جسے ٹیکسلا عجائب گھر منتقل کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ دیوار کے اندر، بدھ وجرہ پانی کے ساتھ موجود ہے۔

ٹیکسلا عجائب گھر اور جولیاں میں بدھ کے بائیں کندھے کے پاس وجرہ پانی کو دیکھنا، بہت دل چسپ ہے۔ اسے بدھ اور بودھی تعلیمات کا محافظ کہا جاتا ہے۔ بدھ مت کے اوئل میں یہ یکشا تھا۔ کشن سلطنت (پہلی یا تیسری صدی عیسوی) کے زمانے میں، اس کی صورت یونانی ہر کلیس کی مانند ہوگئی۔ یونانی ہرکلیس، یونانی تہذیب کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ وجراپنی، گندھار اتہذیب میں بدھ اور بدھ مت کا محافظ ہے۔

تمام محافظ ہتھیار بند اور غصیلے ہوتے ہیں۔ ہرکلیس کے پاس چھڑی بھی ہے اور غصہ بھی۔ وجرہ پانی کے پاس بجلی کی کڑک اور غیظ دونوں ہیں۔ خود مہاتما بدھ، امن پسند، تخت وتاج کو ٹھکرانے والا، سادگی پسند تھا اور طاقت کی کسی دیوتائی علامت، بہ شمول انسانی انا کی نفی کرنے والا تھا، مگر بدھ مت کی تہذیب کی ترقی میں سب سے بڑا کردار شہنشاہوں کا تھا۔ وجرہ پانی، مہاتما بدھ کو نہیں، گندھارا تہذیب کے تصور بدھ مت کو پیش کرتا ہے۔

جس وقت ہم جولیاں پہنچے، وہاں بندہ تھا نہ بندے کی ذات۔ تھوڑی دیر بعد ایک خاتون آئیں۔ وہ اس تاریخی عمارت کی کیوریٹر تھیں۔ اس نے جولیاں کے ایک ایک حصے کو دیکھنے میں ہماری رہ نمائی کی۔ کچھ بندکمرے تھے، انھیں ہمارے لیے کھولا۔

دو ہزار برس کے زمانے میں ڈیڑھ دو گھنٹے گزارنا، ناقابل فراموش تجربہ ہے۔

ایسےتجربے، دل وذہن میں مسلسل دہرائے جاتے رہتے ہیں۔