جیسے ہی اسرائیل کا ایران کے ساتھ فوجی تصادم عالمگیر بحران کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، یورپی یونین ایک بار پھر اپنے اخلاقی جمود کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ اسرائیل کے متنازعہ پیشگی فضائی حملوں۔۔ جنہیں بین الاقوامی قانونی ماہرین اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دے چکے ہیں۔۔ کے بعد ٹیل ابیب کے ساتھ یورپی یونین کی تجارتی اور سفارتی مراعات پر نئی نظرثانی کی جا رہی ہے۔
حملوں سے صرف چند دن پہلے جاری ہونے والی ایک اہم یورپی دستاویز میں اسرائیل پر یورپ اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے آرٹیکل 2 کے تحت انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اب، جبکہ ویسٹ بینک میں آبادکاروں کا تشدد عروج پر ہے اور غزہ اسرائیلی محاصرے کے تحت بھوک کی انتہا کو چھو رہا ہے، ایران کے ساتھ اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے یورپ کے اخلاقی بحران کو مزید گہرا کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا یورپی یونین بین الاقوامی قانون کا تحفظ ٹھوس پابندیوں سے کرے یا عالمی ساکھ قربان کرکے اپنے اسٹریٹجک مفادات کو ترجیح دے؟
خود یورپی لیڈرز اور پارلیمینٹرینز کی نظر میں غزہ کے بعد اب اصفہان پر گرنے والے بموں کے سائے میں یورپ کی خاموشی مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔ اس تنازعے کے خاتمے کا راستہ یورپ کے ادارہ جاتی فالج کی نذر ہو چکا ہے، جہاں ہنگری اور چیک جمہوریہ کی ویٹو طاقت حتمی اقدامات کو روک رہی ہے، جبکہ جرمنی کا ہولوکاسٹ کے تاریخی بوجھ اور احساس جرم کا حوالہ اسرائیل کو جوابدہی سے بچانے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ ویٹو طاقت کو نظرانداز کرنے والے طریقہ کار۔۔ جو قانونی طور پر موجود ہیں مگر سیاسی طور پر آزماے نہیں گئے۔۔ کو فعال کیے بغیر یورپی یونین اپنے ہی بیان کردہ بین الاقوامی اصولوں کو نافذ کرنے سے قاصر رہے گی۔
حالیہ مہینوں میں یورپی یونین غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے حوالے سے ایک پیچیدہ سفارتی توازن قائم کرنے کی کوششوں میں الجھتی چلی گئی ہے۔ جون میں منظر عام پر آنے والی ایک خفیہ دستاویز کے مطابق اسرائیل بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے انسانی حقوق کے فرائض پورے نہیں کر رہا۔۔ ایک ایسا دعویٰ جس نے براعظم میں سیاسی ہلچل مچا دی ہے۔ گارڈین اور اسرائیل ہایوم سمیت متعدد میڈیا آؤٹ لیٹس کو ملنے والی اس رپورٹ میں ثبوت موجود ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی رویہ جنیوا کنونشنز سمیت انسانی حقوق کے معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔
یورپی سفارتکاروں اور قانونی مشیروں کی تیار کردہ یہ رپورٹ اگرچہ حتمی نتیجہ نہیں، مگر اسرائیل کے بارے میں یورپی اندرونی مکالمے میں اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس دستاویز نے یورپی خارجہ پالیسی حلقوں میں فوری بحث چھیڑ دی جس میں یورپ اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے معطل کرنے اور مخصوص اسرائیلی اہلکاروں پر ہتھیاروں کی پابندی اور ویزا پابندیاں عائد کرنے جیسے اقدامات زیر غور لائے۔ مگر یہ بحثیں ابھی تک عملی شکل اختیار نہیں کر سکیں، کیونکہ یورپ کی دونوں متحارپ ممالک کے درمیان مذاکرات کی کمزور کوشش کے جواب میں ایرانی قیادت کا اسرائیلی حملوں کے مکمل بند ہونے کا مطالبہ اور واشنگٹن کی یورپی ثالثی کو مسترد کرنے کی پالیسی نے یورپ کو بالکل غیر مؤثر بنا دیا ہے۔ جس کے بعد جنگ بندی کا امکان جنگ کے میدان میں تھکن یا امریکی پشت پناہی سے ہونے والے خفیہ معاہدوں کا مرہون منت نظر آیا نہ کہ برسلز کی منتشر سفارتکاری کا۔
اہم یورپی ممالک جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور اسپین نے حالیہ مہینوں میں اسرائیل کے خلاف اپنے لہجے میں نمایاں سختی پیدا کی ہے۔ اگرچہ یہ ممالک اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق اور پرامن بقائے باہمی کو تسلیم کرتے ہیں، مگر وہ جنگ بندی کا مطالبہ اور دو ریاستی حل سمیت پرامن مذاکرات کی بحالی کی وکالت میں زیادہ سرگرم ہو گئے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے غزہ کی صورت حال کو "ناقابل برداشت" قرار دیا، جو فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کی عکاسی ہے۔ تاریخی طور پر ہولوکاسٹ کی اخلاقی دباٶ میں رہنے کی بنا پر اسرائیل کا مضبوط ترین حلیف رہنے والے جرمنی نے بھی اپنا لہجہ بدلا ہے۔
وزیر خارجہ اینالینا بیربوک نے شہریوں کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا، اگرچہ وہ اسرائیل کے اپنے پیدا کیے گئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے حق کا دفاع بھی کرتی ہیں۔ اس لفظی تبدیلی کے باوجود یورپی یونین متحدہ موقف سے کوسوں دور ہے۔ مشرقی یورپی ممالک جیسے ہنگری اور چیک جمہوریہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور پابندیوں کی کسی بھی کوشش یا اسرائیلی فوجی حکمت عملی پر سوال اٹھانے کی مخالفت کرتے ہیں۔
یہ تقسیم اجتماعی یورپی کارروائی کو ناممکن بنا رہی ہے، جس کی وجہ سے پالیسیاں علامتی بیانات تک محدود رہ گئی ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ کی مباحثوں نے بلاک کی اندرونی دراڑوں کو واضح کیا ہے۔ ترقی پسند اور گرین پارٹی کے اراکین نے سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تمام یورپ اسرائیل تعاون کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے برعکس، مرکز و دائیں بازو کے اراکین پارلیمنٹ نے اسرائیل کو الگ تھلگ کرنے یا فلسطینی علاقوں میں انتہا پسند گروہوں کو طاقت دینے کے خلاف انتباہ کیا ہے۔
پورے یورپ میں عوامی رائے بھی غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف ہوگئی ہے۔ بڑے یورپی دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، جہاں نوجوانوں نے اپنی حکومتوں سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد روکنے اور جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کی جانب سے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سمیت اسرائیلی قیادت کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کرنے کی کوشش نے یورپی یونین کی پوزیشن مزید پیچیدہ بنا دی۔ اگرچہ آئرلینڈ اور بیلجیم جیسے رکن ممالک نے ICC عمل کی حمایت کا اشارہ دیا، دوسروں نے قانونی پیچیدگیوں اور جیو پولیٹیکل خطرات کا حوالہ دے کر ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔
یورپی یونین کا یہ بحران اس کے بنیادی اقدار۔۔ جمہوریت، انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور مشرق وسطیٰ میں اسٹریٹجک مفادات کے درمیان کشمکش کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیل تجارت، ٹیکنالوجی، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں ایک اہم شراکت دار ہے۔ ایسے اتحادی سے دوری خطے کے دیگر اتحادوں کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی، مسلسل غیر فعال رہنا یا جانبدار سمجھا جانا عالمی سطح پر یورپی یونین کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، خاص طور پر جنوبی عالمی ممالک میں جہاں مغربی دوہرے معیارات کے بارے میں خیالات گہرے ہو رہے ہیں۔ جیسے جیسے غزہ میں انسانی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے اور عالمی قانونی جائزہ شدت اختیار کر رہا ہے، یورپی یونین ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔
کیا وہ اپنے اندرونی اختلافات پر قابو پا کر مربوط اور اصولی خارجہ پالیسی پیش کر سکے گی، یہ ابھی ایک کھلا سوال ہے۔ اسرائیل، ایران اور غزہ بحران پر یورپی ردعمل جدید سفارتکاری میں پنہاں کشمکش کو واضح کرتا ہے۔ اگرچہ بہت سے رکن ممالک اسرائیلی کارروائیوں پر سوال اٹھانے اور جوابدہی کا مطالبہ کرنے کے لیے وکالت کرنے کو تیار ہیں مگر سیاسی اتحاد کی کمی مضبوط اجتماعی کارروائی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ خطے کے مستقبل کو سفارتی، معاشی اور قانونی طور پر تشکیل دینے میں یورپ کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ تنقید کی زد میں ہے۔
ایران اسرائیل جنگ پر یورپ کا منتشر اور مایوس کن ردعمل اس نام نہاد مہذب دنیا کے حکمرانوں کی اخلاقی اور قانونی کمزوری کو بے نقاب کر رہا ہے۔ جب مشرق وسطی کے آسمانوں پر ہر نئے دن مسلسل میزائل گزر رہے تھے، یورپی یونین کے سفارتکار اس عالمگیر جنگ کو ٹالنے کے لیے محض بیان بازی کر رہے تھے۔ اندرونی تقسیم، سفارتی استرداد اور محدود اثر و رسوخ سے نشان زد ان کی کوششوں نے ایک ایسے تنازعے میں یورپی طاقت کی واضح حد بندیوں کو بے نقاب کر دیا جو تیزی سے کنٹرول سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ یورپی یونین کا متحدہ ردعمل تشکیل دینے کی جدوجہد نہ صرف بحران کی پیچیدگی بلکہ خطے کے نظام کو نئے سرے سے تشکیل دینے والی دو مخالف قوتوں کے ساتھ اس کے تعلق میں بنیادی دراڑوں کی عکاسی کرتی ہے۔ یورپ کی مداخلت کا مرکز 20 جون کو جنیوا میں اس وقت سامنے آیا جب "E3" طاقتوں۔۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ۔۔ کے وزرائے خارجہ اور یورپی خارجہ پالیسی سربراہ کایا کالاس نے ایرانی وزیر خارجہ عباس آراغچی کے ساتھ تین گھنٹے کی کشیدگی پر مبنی بات چیت کی۔
اس مشن کا مقصد تہران کو جوہری مذاکرات میں واپس لانا اور جنگ بندی حاصل کرنا تھا۔ یہ ناکامی پر منتج ہوا۔ آراغچی نے ایک کٹر شرط رکھی، "اسرائیلی جارحیت رکنے تک امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں"۔ ایران سے براہ راست واشنگٹن سے بات چیت کرنے کی یورپی التجائیں ناکام رہیں، جبکہ آراغچی نے اصرار کیا کہ مذاکرات صرف اس صورت میں آگے بڑھ سکتے ہیں جب "جارح کو جوابدہ ٹھہرایا جائے"۔ صدر ٹرمپ نے یورپی سفارتی کوشش کو سرعام مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا، "ایران یورپ سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ہم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں یورپ مدد نہیں کر پائے گا"۔ ان کا شک اس وقت درست ثابت ہوا جب ترکی کے ذریعے چلائی جانے والی ایک خفیہ سفارتی کوشش اس لیے ناکام ہوگئی کہ ایرانی اہلکار سپریم لیڈر خامنائی سے منظوری حاصل نہ کر سکے۔
جنگ بندی کے بعد کی صورتحال میں بھی واضح نہیں کہ یورپ کا مستقبل میں کوئی عالمی یا خطہ جاتی کردار متشکل ہوتا ہے یا نہیں۔ اجتماعی سفارتکاری کی سطح کے نیچے، گہری تقسیم یورپی افادیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ جرمنی اسرائیل کا سب سے مضبوط یورپی حلیف ہے، جو اسرائیلی کارروائیوں پر تنقید کرنے سے انکار کرتا ہے اور اسرائیلی الزامات کی بنیاد پر یو این آر ڈبلیو اے کو فنڈنگ روک چکا ہے۔ وہ اسرائیل کے خلاف سزا کے اقدامات کی مخالفت کرتا ہے۔ ہولوکاسٹ پر جرمنی کے تاریخی احساسِ جرم کو اسرائیل نے منظم طریقے سے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں اور وسیع تر علاقائی پالیسیوں پر جرمن تنقید کو محدود کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ فرانس اسرائیل کے خلاف سب سے سخت لائن کی وکالت کرتا ہے۔
صدر میکرون نے فلسطین کو فوری تسلیم کرنے کا عہد کیا ہے اور اسرائیل پر یورپ گیر پابندیوں کے لیے زور دیا ہے۔ انہوں نے عوامی طور پر دلیل دی تھی کہ اسرائیلی فوجی کارروائی تنہا ایران کے جوہری خطرے کو ختم نہیں کر سکتی، خاص طور پر فورڈو جیسے گہرائی میں دفن مقامات کے حوالے سے۔ لیبر پارٹی کے وزیر اعظم کئیر اسٹارمر کے تحت برطانیہ ایک درمیانی راستہ اپنا چکا ہے۔ اسرائیل کی سلامتی کی ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے، اس نے انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزراء اتمار بن گویر اور بیزلایل سموتريچ پر فلسطینیوں کے خلاف "تشدد کی ترغیب" کے الزام میں پابندیاں عائد کرنے کا ایک ایسا اقدام اٹھایا جسے اسرائیل نے "اشتعال انگیز" قرار دیا۔
یہ اختلافات فیصلہ سازی کو مفلوج کر رہے ہیں۔ جیسا کہ کالاس نے پابندیوں کے تجاویز پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "پابندیوں کے لیے اتفاق رائے درکار ہے۔۔ میں جانتی ہوں کہ یہ منظور نہیں ہوگا اور پھر یہ صرف ظاہر کرے گا کہ ہمارا کوئی مشترکہ موقف نہیں"۔ ہنگری اور چیک جمہوریہ مستقل طور پر اسرائیل کو سخت یورپی اقدامات سے بچاتے ہیں، جبکہ اسپین، آئرلینڈ اور بیلجیم جوابدہی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بیک وقت، یورپی یونین کو اسرائیل کے ساتھ اپنے بنیادی تعلق پر نظرثانی کرنے کا بڑھتا ہوا دباؤ درپیش ہے۔ یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس (EEAS) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ثبوت موجود ہیں کہ اسرائیل یورپ-اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے آرٹیکل 2 کے تحت اپنے انسانی حقوق کے فرائض کی خلاف ورزی کر رہا ہے"۔ یہ اہم دستاویز غزہ پر اسرائیلی محاصرے اور ضروری اشیاء پر پابندیوں کا حوالہ دیتی ہے جو "پوری آبادی" کو متاثر کر رہی ہیں۔
نیدرلینڈز کی قیادت میں 17 رکن ممالک کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ یہ دستاویزی جائزہ یورپ میں اسرائیل کی سفارتی ڈھال کے کٹاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔ تاہم، ٹھوس کارروائی کا امکان کم ہے۔ ایسوسی ایشن معاہدے کی مکمل معطلی کے لیے اتفاق رائے درکار ہے، جس پر ہنگری یا چیک جمہوریہ ویٹو کر دیں گے۔ ترجیحی تجارتی شرائط یا اسرائیل کی ہورائزن یورپ تحقیق پروگراموں (831 ملین یورو مالیت) میں شرکت معطل کرنے کے لیے صرف معیاری اکثریت درکار ہے مگر برلن اور دیگر کی سخت مخالفت کا سامنا ہے۔
سفارتی جمود کے درمیان، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ایران کو ایک جامع یورپی پیشکش کا خاکہ پیش کیا، جو جوہری مسائل سے کہیں آگے تک پھیلا ہوا ہے، زیرو یورینیم انریچمنٹ۔۔ ایران کی گھریلو انریچمنٹ ختم کرنے کی اصل مانگ کی طرف واپسی، جس کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت کثیر قومی کنسورشیم شامل ہو سکتا ہے۔۔ کے ساتھ ساتھ ایران کے میزائل کی صلاحیتوں پر پابندیاں اور خطے میں عسکریت پسند گروہوں کو ایرانی حمایت کا خاتمہ۔ اس وسیع ایجنڈے نے تجزیہ نگاروں میں شکوک و شبہات پیدا کیے۔
یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کی ایلی گیرانمایہ نے "ٹرمپ انتظامیہ کے موقف سے بھی زیادہ سخت الٹی میٹم طے کرنے" کے خلاف انتباہ کیا، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یورپ کی تاریخی طاقت مصالحت کرانے میں تھی جہاں امریکہ اور ایران انتہائی موقف اپنا رہے تھے۔ ایران نے مستقل طور پر انریچمنٹ ترک کرنے سے انکار کیا ہے، اسے نیوکلیئر نان پولیفریشن ٹریٹی (NPT) کے تحت ایک خودمختار حق قرار دیتے ہوئے ایران نے ایک ایسا موقف جسے یورپ نے کبھی مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا۔
یورپی یونین کے بیانات مسلسل بین الاقوامی قانون اور انسانی تحفظ پر زور دیتے ہیں۔ کالاس نے بلاک کی "خطے کی سلامتی بشمول اسرائیل کی سلامتی کے لیے مضبوط عہد" کی تصدیق کی، جبکہ اس بات پر زور دیا کہ "پائیدار سلامتی سفارتکاری سے بنتی ہے، فوجی کارروائی سے نہیں"۔ EEAS کی رپورٹ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی انسانی قیمت کو بے رحمی سے دستاویزی شکل دیتی ہے، جو مستقبل کے قانونی چیلنجز کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ ایک ہی وقت میں، یورپی یونین جوہری خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔
IAEA کے سربراہ رافیل گروسی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خبردار کیا کہ جوہری سہولیات پر حملوں کے نتیجے میں "تابکاری کے اخراج کے سنگین نتائج" ایران کی سرحدوں سے باہر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اس انتباہ کے بعد اس بات پر ابہام پیدا ہوا کہ کیا اسرائیل نے ایران کے بوشہر جوہری پاور پلانٹ پر حملہ کیا جو کہ ایک ایسی کارروائی ہے جو ماحولیاتی تباہی کو جنم دے سکتی ہے۔ یورپ کی سفارتی جمع پونجی ابھی کے لیے ختم ہو چکی ہے اور بہت سیے اہم چیلنجز منڈلا رہے ہیں۔ جیسے ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے تمام فریقوں سے "امن کو موقع دینے" کی اپیل کی، یورپ خود کو بےعمل اور پسِ پردہ پاتا ہے۔
اس کے محتاط بیانات، اندرونی دراڑیں اور متحارب فریقوں میں سے کسی کو بھی قابلِ قبول مراعات یا پابندیوں کی پیشکش کرنے سے قاصر ہونا ایک تکلیف دہ حقیقت اور مفلوج صورتحال کو اجاگر کرتا ہے: ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک انتہائی خطرناک تنازعے میں، جہاں ایک غیر مستحکم، غیر مستقل مزاج اور غیر سنجیدہ امریکی صدر مداخلت کا سوچ رہا ہے، یورپی یونین کی آواز سنی جانا تو دور، اس کی طرف کسی کا مڑ کے دیکھنا ہی مشکل نظر آ رہا ہے۔
آنے والے دن ثابت کریں گے کہ آیا یورپ اپنے اختلافات پر قابو پا کر اپنی معاشی اور اخلاقی طاقت کے زریعے ارائیل کی پھیلائی ہوئی خطے گیر آگ کو روکنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے یا اس امن دشمن عفریت کا تماشائی بن کر رہ جاتا ہے جس سے وہ خود بھی خوفزدہ ہے مگر اس کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ جیسا کہ حالیہ کشیدگی میں وقتی طور پر کمی کا سب سے ممکنہ راستہ یورپی اقدامات سے نہیں بلکہ بیرونی ثالثی چینلز، ممکنہ طور پر خلیجی ممالک، روس پاکستان اور امریکہ کی شمولیت، یا باہمی روک تھام کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا ہے۔
میں نے وقتی طور پر اس لیے کہا ہے کہ مجھے بطور ایک شاعر کے نظر نہیں آتا کہ اسلحہ سازی کی صنعت جو اگلے دس سالوں کا منافع بخش بزنس پلان بنا چکی ہے، دنیا کو جنگوں کے شکنجوں سےنکلنے دے گی۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہر جنگ کے بعد طیاروں اور میزائلوں کے ریٹس اور برینڈنگ کا چرچا ہوتا ہے۔ حالیہ جنگ کے بعد ایران عوام کی صحت اور تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات کاٹ کر روس سےمیزائل اور چین سے طیارے خریدے گا جبکہ اسرائیل امریکہ سے۔ ابھی تو یہ جنگ بہت سے گاہک اور پیدا کرے گی۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان اڑنے والے میزائلوں نے جس طرح مشرق وسطی پر جنگ کا خوف روس اور یوکرین وار کے درمیان جھیل چکی ہے اور جھیل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لمحہء موجود میں یورپی یونین کی لاچارگی خود بول رہی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ سترہ رکن ممالک کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں، مگر ہنگری اور چیک جمہوریہ کے ویٹو اور جرمنی کی ہچکچاہٹ کسی بھی معنی خیز یورپی ردعمل کو روک رہے ہیں۔
دریں اثنا، برطانیہ صف توڑ چکا ہے، اسرائیلی انتہا پسندوں پر پابندیاں عائد کرکے اور اسرائیلی کارروائیوں کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا کر۔ ایران-اسرائیل جنگ یورپی یونین کی بدترین جبلتوں، خطرے سے گریز، انتشار اور اثر و رسوخ کھونے کے خوف کی وجہ سے مفلوج ہونا، کو بے نقاب کر رہی ہے۔ مگر اصولوں کے بغیر اثر و رسوخ ایک کھوکھلی کرنسی ہے۔ اگر یورپی یونین اسرائیل کے غزہ میں انسانی حقوق کے اصولوں اور ایران کے خلاف جنگ چھیڑنے کے قانون (jus ad bellum) کی خلاف ورزیوں کے باوجود بھی اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کرتی ہے، تو وہ محض جنگی جرائم کا تماشائی نہیں رہے گی بلکہ ان کی معاون بن جائے گی۔
انسانی حقوق کی پابندیوں پر معیاری اکثریت سے ووٹنگ، جو پہلے ہی یورپی معاہدوں کے تحت قانونی ہے، اب فعال ہو جانی چاہیے۔ داؤ پر لگی ہوا اب صرف فلسطینی زندگیاں نہیں بلکہ یورپ کا خود خطے گیر جنگ میں معاونت کا کردار ہے۔ تاریخ بزدلوں کو معاف نہیں کرے گی۔ جب تنازع کا اختتام آئے گا، تو وہ غالباً یورپ کے کنٹرول سے باہر کے عوامل، امریکی انتخابی حساب کتاب، اسرائیلی اندرونی دباؤ، یا ایرانی حملے جھیلنے کی صلاحیت، سے تشکیل پائے گا۔
یورپ کا اخلاقی زوال اس طرح مکمل ہو چکا ہے، نہ امن قائم کر سکنے کی صلاحیت، نہ جنگ روک سکنے کی طاقت، تاریخ میں اب اسے اب صرف یہی یاد رکھا جائے گا کہ یورپی یونین ایک ایسے شر پسند ملک کے خلاف اصولی فیصلہ کرنے میں ناکام رہی جب اس کی سفارتی نگاہوں کے سامنے ہسپتال جل رہے تھے اور بچے بھوک سے تڑپ رہے تھے۔