1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسنین حیدر/
  4. یہ کافر کرونا

یہ کافر کرونا

تخلیقِ دنیا سے لے کر قیامِ دنیا تک اور آبادی انسانی کے تسلسل تک، دنیا نے کئی موڑ دیکھے، کئی تہذیبیں پروان چڑھیں، کئی نظریات نے جنم لیا، کئی مذاہب کی تشکیل قرار پائی اور کئی اقوام نے جدت اپنائی۔ ایک وقت تھا کہ انسان بدن تک نا ڈھانپتا تھا پھر پتوں کا لباس زیبِ تن کیا۔ جو انسان غاروں کا مکیں تھا، عمارتیں کھڑی کیں، ایک وقت تھا کہ انسان فقط سورج سے ہی حرارت لیا کرتا تھا، پھر پتھروں کو رگڑ کر آگ جلائی۔ یعنی انسان نے جدت کے کئی ادوار طے کیے، کئی منازل طے کیں۔۔۔ انسان نے معاشرت میں تغیر و ارتقا کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ فطرت میں حیرت زدہ رہی۔ یقین نہیں آتا تو کم از کم آسمان میں موجود سیٹلائٹس کو ہی دیکھ لیجئے۔ نت نئی ایجادات اور معاشرتی ارتقا اور تہذیب و تمدن کے اصول وضع کئے گئے۔ رولز اینڈ ریگولیشنز کیلئے محکمے اور ادارے قائم کئے گئے۔ کچھ اصول و ضوابط عمومیت پہ مبنی ہیں تو کچھ محدود و خاصیت پہ مبنی ہیں۔

تہذیب کا ایسا بھنور چلا کہ مرد و زن کی تفریق بظاہر مشکل نظر آنے لگتی ہے۔ جو انسان پتوں سے بدن ڈھانپا کرتا تھا آج تھری پیس سوٹ پہنتا ہے۔ مزکورہ مثالیں اور گفتگو سے ثابت کرنے کی یہ غرض کے انسان نے صدرِ معاشرت سے لے کر تہذیب کی بلندیوں تک کا سفر بہت پرکشش طریقے سے انجام دیا ہے۔ انسانی زندگی کے ہر شعبے میں ترقی نظر آتی ہے، صنعت، صحت، تجارت، زراعت، لباس، رہن سہن، کھیل وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس سب کے باوجود بھی انسان میں کمی رہ گئی۔ آپ کیلئے میری یہ بات تعجب خیز ہے مگر جیسے کسی انسانی جسم میں وٹامنز کی کمی رہ جاتی ہے یا چائے میں چینی و شکر کی یا سالن میں نمک کی۔ پس اسی طرح انسانی کردار میں بھی کمی رہ جاتی ہے۔ یہ کمی "شعور کی کمی ہے۔" (*اس بات کا اطلاق تمام بنی نوع آدم پہ نہیں۔ مگر اکثریت شعورکی کمی کا شکار ہے، دوسری اقوامِ عالَم کی نسبت پاکستانی قوم کچھ زیادہ ہی اس موذی مرض کا شکار ہے۔ ) بطور مہذب انسان قارئین کیلئے یہ بات ناقابلِ قبول ہوگی۔ مگر ہمارے رویے کو جانچنے کیلئے حالاتِ حاضرہ ہی کافی ہیں۔

آج ہر سُو کورونا کا رونا ہے، ہر طرف کورونا کی دُھن ہے، ہر زبان پہ کورونا کا راگ ہے۔ مگر انتہائی افسوس کی بات کے مملکتِ پاکستان کے باسیوں نے دنیا کا حالِ زار دیکھ کر بھی عبرت حاصل نہیں کی۔ اٹلی جوکہ یورپ کا مہذب اور متوسط ترقی یافتہ ملک ہے، دنیا کے جدید وسائل بھی ہیں۔ دنیا کی ریکوئرمنٹس کے مطابق اٹلی کا اسلحہ اور دیگر مصنوعات دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یعنی اٹلی کس نوعیت کا ملک ہے! مگر وہاں کورونا کیسے پھیلا؟ ایک معمولی سی غفلت سے۔ ایک شخص متاثر ہوتا ہے اور گھر میں بیوی، والدین کو متاثر کرتا ہے، والد بار یعنی شراب خانہ چلاتے ہیں، وہاں سے گاہک متاثر ہوتے ہیں۔ یوں معاشرتی تفاعل کے نتیجے میں پورا معاشرہ آج لپیٹ میں۔ آج اٹلی کی کیا حالت ہے؟ 24 گھنٹوں میں 792 سے زائد افراد جاں بحق، دفنانے کو جگہ میسر نہیں، ہسپتال مریضوں سے بڑھ گئے۔ مگر کورونا قابو میں نہیں۔۔۔ دنیا کی حالتِ زار دیکھتے ہوئے پاکستانیوں نے کیا سیکھا؟ فقط طنز و مزاح اور غیر سنجیدہ و غیر زمہ دارانہ پن!!!

دنیا بھر سمجھا رہی ہے کہ احتیاط کریں، اقدامات کریں۔ مگر ہم۔ جی ہم تو لا الہ الاللہ پڑھنے والے ہیں، ہم تو امتِ محمدیہ ﷺ ہیں۔ کورونا ہمارا کیا بگاڑے گا؟ کیا واقعی ہم کلمہ طیبہ کو سمجھتے ہیں؟ کیا واقعی ہم امت ہیں؟ کیا واقعی ہم نبی مکرم ﷺ کی تعیمات کو سمجھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے تو صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ معاشرتی اقدار اور انکی پاسداری کو اولین ترجیح قرار دیا ہے۔۔۔ مگر ہم فقط نعرے مارنے اور دوسرے مسالک و طبقات کو برا بھلا کہنے اور اپنی جیب گرم کرنے میں سرگرم ہیں۔ کل تک ماسک کی کیا قیمت تھی اور آج کیا قیمت ہے؟ ہمارا ایمان اسی درجے پہ ہے؟ جس اسلام میں، جس نبی ﷺ نے ایک انسان کا خون پوری انسانیت کا خون قرار دیا، اسی دین و نبی کے پیرو انسانیت کے منافی اعمال انجام دے کر انسانوں کی جاں کے ضیاع کا باعث بن رہے ہیں۔۔۔ اخلاق و اعمال، معاشرت و تجارت اور Sanitation کا کیا حال ہے؟ کوئی بھی شخص دکھا دے کے نبی مکرم ﷺ کی قائم کردہ ریاستِ مدینہ میں ایک بھی غلاضت کا ڈھیر تھا۔

یوں تو پاکستان بھی دو قومی نظریہ اور اسلام کے نام پہ حاصل ہوا، پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الاللہ اب تک گونج رہا ہے۔ مگر کیا ہم اس معیار و سطح پہ ہیں کہ ہمیں یہ زیب دیں؟ آج یومِ پاکستان کس شے کا تقاضہ کرتا ہے؟ ستر سال پہلے تو سب متحد تھے۔ نہ مسلکی اختلاف نہ سیاسی، نہ لسانی نہ صوبائی۔ آج جبکہ مصیبت سروں پہ منڈلا رہی ہے تو کسی مولوی کو پیٹ کی پڑی ہے تو کسی کو سیاسی کو اسمبلی کی سیٹوں کی۔۔۔ ہمارا اجتماعی کردار و رویہ کیسا ہے؟ صدرِ پاکستان میں گورنر شیعہ، وزیرِ مملکت سنی، قانون دان ہندو اور فارن منسٹر قادیانی تھا۔ ستر سال بعد تو بھی کافر میں بھی کافر۔ بس اسی کھیل میں سب کا کھیل پورا ہوگا۔ پھر ہوگا یہ کہ دفنانے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ کیا پتا قبر تک نصیب میں نہ ملے!