1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسنین حیدر/
  4. ڈونٹ یو کوریکٹ می

ڈونٹ یو کوریکٹ می

یہ گزشتہ سیاسی جماعت کے دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی بات ہے کہ مجھے ہماری یونین کونسل کے چیئرمین کی سیٹ کیلئے نون لیگ کی طرف سے انتخاب لڑنے والے امیدوار نے خواتین کیلئے لگائے کیمپ میں کھڑا کیا، پولنگ اسٹیشن کے قریب ایک گھر کو بطور خواتین کا کیمپ استعمال کیا گیا۔

صبح کا وقت تھا، سرد فضا میں سورج کی تپش اپنا رنگ جما رہی تھی۔ اسی تپش میں ایک خواہر داخل ہوئیں، بظاہر خوبرو اور نفیس مزاج کی انسان تھیں۔ چونکہ گھر رشتہ داروں کا تھا تو وہاں موجود خاتون نے انہیں چائے بنا دی اور مجھے کہا کہ یہ شہید آفتاب اقبال کی ہمسفر ہیں۔

ابھی یہ آواز میرے کانوں تک پہنچی ہی تھی کہ دریائے سندھ کے کنارے گومل یونیورسٹی سے ایک آواز گونجتی ہوئی فضا کے تلاطم میں ٹکرائی: "یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے!!!" میری ٹکتی بندھ گئی۔ قوتِ فہم و فراست سکتے میں تھی۔ کہ اچانک ایک زور دار فطری تفکر نے طمانچہ مارا اور میرا ضمیر میرے مقابل آ کھڑا ہوا، ضمیر سے ہونے والے میرے ٹکڑاؤ کی داستان بتانے سے قبل شہید آفتاب اقبال کا اختصار سے تعارف پیش کئے دیتا ہوں۔

شہید آفتاب اقبال کون ہیں؟ باوردی فوجی جوکہ بلوچ ریجمنٹ کا حصہ تھے اور میران شاہ میں دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے زخمی ہوکر اثیر بنے بعد ازاں پاؤں سے شروعات کرتے ہوئے سر تک انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا، یوں انہوں نے ایک درد ناک شہادت نصیب کی۔ اچانک اس نعرے نے چونکا دیا۔ بہت سے سوالات نے جنم لیا۔ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے، بجٹ کا بڑا حصہ کھا رہی ہے، کوئی معرکہ سر نہیں کررہی، وغیرہ وغیرہ۔

فوج نے کب مداخلت کی؟ اسکی کوئی تاریخ؟ جی ہاں۔ جب محمد علی بوگرہ نے اپنا فارمولہ کو حتمی شکل دینے اور اس خدشہ سے بچنے کیلئے کہ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین انکی وزارت برطرف نہ کریں، راتوں رات 1935 کے انڈیا ایکٹ کی دفعہ 10 کو اسمبلی سے منظور کرواتے ہوئے ختم کردیا۔ لیکن 24 اکتوبر 1954 کو گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی کو ہی توڑ ڈالا۔ جسکے بعد انہوں جے ایم اے بوگرہ کو نئی کابینہ بنانے کے کہا۔ انکی بنائی جانے والی کابینہ میں سیکرٹری دفاع سکندر مرزا اور دوسرے بری فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان تھے، جو وزیرِ دفاع بنے! یہاں ضمیر نے سوال کیا کہ آج ڈیموکریٹک سپرمیسی کی باتیں کرنے والے کوئی منطق دے سکتے ہیں کہ یہ کس ضابطے کے تحت کیا گیا اور کیوں سرکاری ملازم ہوتے ہوئے کابینہ کا رکن بنایا گیا؟ یہ دروازہ فوج نے خود کھولا یا چور دروازہ جمہوری کارکنان نے دیا؟

دہشت گردی کے پیچھے وردی! قافیہ و ردیف تو درست ہے مگر یہ بات کس تناظر میں کی جارہی؟ جس نے نعرہ لگایا وہ ہے کون؟ جس ادارے سے نکلا ہے، وہاں کا کیا حال ہے؟ گومل یونیورسٹی کے ایک طالبِ علم سے بات کرتے ہوئے معلوم ہے کہ وہاں تنظیمیں سربراہ ہی اسے بناتی ہیں جو شریر و شدت پسند ہو، اور اس بار بھی یہی ہوا۔ ایک شریر و شرپسند و شدت پسند شخص کو لا کھڑا کیا۔ جس نے وہی کوشش کی جو دشمن نے لیبیا، عراق و شام میں کی۔ یعنی عوام و فوج میں فاصلہ بنا کر کمزور کیا پھر سول وار کے زریعے ملک کو بدحال کردیا۔ ان کے نعروں کی مثال ان الحکم الا للہ سے کم نہیں کہ جب خوارج نے نہروان میں یہ نعرہ بلند کیا تو امام علی علیہ سلام نے فرمایا کہ نعرہ تو حق ہے مگر اس سے مراد باطل!

فوج بجٹ کھاتی ہے! ہممم! مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب ہمارے گاؤں سے مغرب کی جانب ایک گاؤں ہے، جھلار سکندر، وہاں کا ایک ریٹائرڈ آرمی پرسن ہمارے گاؤں کی ایک چوک سے گزر رہا تھا کہ ہمارے علاقے کا ایک حاضر سروس فوجی بیٹھا تھا۔ وہ رکے، اپنے بچوں کے ساتھ تھے۔ ملاقات کی۔ اس دوران میں نے مشاہدہ کیا کہ وہ شخص وہی کپڑے پہنے ہوئے ہیں جو فوجی وردی کی طرز پہ سیئے جاتے ہیں جوکہ قبائلی علاقہ جات یا پختون خوا میں فرنٹیئر کور پہنتی ہے۔ اور انکے بچوں کے پیروں میں جوتے تک نہ تھے، پرانا لباس تھا۔ ظاہر ہے، اسی فیصد بجٹ کھانے سے اتنے اثاثے بنانا تو بنتا ہی تھا۔

اب ایک اور نکتہ کہ فوج کا احتساب ہونا چاہئے! جس شخص نے یہ مطالبہ کیا وہ پاکستان کے آئینی و قانونی اداروں میں مفرور ملزم ہیں، اپنا احتساب مکمل نہیں، چلیں ہیں فوج کا احتساب کرنے! فوج آپ کو احتساب دینے کی کس ضمن میں مجاز ہے؟ ایک اصولی بات کہ فوج ایک عام ادارہ ہے جیسے واپڈا، محکمہ پولیس، محکمہ صحت، محکمہ تعلیم وغیرہ۔ اگر محکمہ صحت کا ملازم بےضابطگی کرے تو محکمہ تعلیم کے قواعد و ضوابط سے اس کی انکوائری ہوگی؟ نہیں۔ کہ یہ اس ادارے کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی طرح پولیس و واپڈا اپنے ہی ضوابط رکھتے ہیں، انکے ادارے کا فرد ادارے کی حدود و قیود کے تحت ادارے کے انکوائری ڈیسک کو جواب دہ ہے۔ اگر ایک وکیل جھوٹی گواہی یا جعلی ڈگری سے وکالت کرے تو اسکے خلاف متعلقہ شعبہ ایکشن لے گا، ایسا نہیں کہ ویٹرنری کا شعبہ ایکشن لے!

ایک اعتراض کہ گوادر کے گرد باڑ کیوں لگائی جارہی؟ گزشتہ ایام میں ایک تصویر دیکھی کہ گوادر کے گرد باڑ لگی ہوئی ہے اور مرکزی حفاظتی دیوار پر دو سیکیورٹی ٹاورز پر دو فوجی مشین گن تیار کئے بیٹھے ایک کے اوپر چینی جھنڈا تو دوسرے پر پاکستانی، جبکہ دیوار پہ بینر آویزہ ہے کہ "Balochs Not Allowed"۔۔۔ اس جملے پہ فقط ایک جواب بنتا ہے کہ "Balochs Are Allowed But BLA - Balochistan Libration Army Is Not Allowed."۔۔۔ رہا اعتراض تو سب سے پہلے گوادر کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے، گوادر پورٹ سی پیک کے توسط سے عالمی معیار کے مطابق بننے جارہی ہے۔ علاوہ اسکے سی پیک پر امریکہ و اسرائیل اور بھارت کی بدنظریں ہیں۔ ممبئی اٹیکس کی طرز سے لے کر کوئی بھی بڑا ممکنہ حملہ ہوسکتا ہے، دوسرا بلوچستان میں بھارت کی مداخلت و شورشوں کی حمایت و بھڑکاوے کے اثباط بہت ہیں، بڑی دلیل کلبھوشن یادیو اور اسکا نیٹ ورک ہے۔

دوسرا نکتہ نیا بلاک ہے، ایران کی امریکہ و اسرائیل سے دشمنی ڈھکی چھپی نہیں اور پاکستان کی بھارت سے۔ پاکستان چین کا اسرائیل ہے تو امریکہ و بھارت و اسرائیل ایک پیج پر۔ بھارت کا عرب دنیا میں اثر و رسوخ بڑھ رہا جسکی جھلک ستر سالوں میں بھارتی آرمی چیف کا دورہِ سعودیہ عرب ہے۔ اس خطے میں امریکہ و بھارت مضبوط ہورہے تو روس و چین نے ایران میں قدم جمانے شروع کردیئے۔ روس نے دفاعی سسٹم لگایا ہے تو چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر چابہار تک پراجیکٹ کو بڑھایا ہے، چاہ بہار بندرگاہ پاکستان میں واقع گوادر بندرگار سے محض 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے!

جب ان شبہات و سوالات کے جوابات میرا ضمیر مجھے دے چکا تو میں نے سر پہ کی ہوئی پارٹی کی ٹوپی کو درست کیا، پارٹی سٹیکر و بَیج کو سیٹ کرتے ہوئے فقط اتنا کہا، "Don't you correct me!"