1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسنین حیدر/
  4. عیدِ غدیر کیا ہے؟

عیدِ غدیر کیا ہے؟

اکثر ہم سنتے و پڑھتے ہیں کہ اسلام مکمل ضابطہِ حیات ہے۔ اسلام کی تاریخ نبوی دور تین حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک اعلانِ نبوت سے قبل کی، دوسری مکی دور اور تیسرا مدنی دور۔ تینوں ادوار اپنے اندر راز اور حکمتیں رکھتے ہیں۔ مکی دور بنیادی احکامِ اسلام اور اسلام کی جڑیں مضبوط کرنے پر ہے جبکہ بعد از ہجرت مدنی دور اسلامی دفاعی جنگوں کے علاوہ اسلام کی ٹھوس ڈھانچہ کھڑے کرنے کا دور ہے۔ اور اس دور میں جو واقعات رونما ہوئے یا جو اسلام کی سمت و نظام واضح و وضع کرنا تھا، وہ سیاسی حوالے سے بہت منطقی ہے۔ کیونکہ تاریخِ نبوی ﷺ کے 23 سالوں میں یہ بھی طے کرنا تھا کہ بعد از رسول ﷺ اسلام کے ڈھانچے کو، اسلام کے نظام کو کون اور کیسے سنبھالے گا؟ اور سنبھالنے والا کا تعین کیسے ہوگا؟ اس کیلئے ملتِ اسلامیہ بنیادی طور پر دو مٶقف رکھتی ہے، یعنی دو گروہ پر مشتمل ہے۔

ملتِ اسلامی کے دو حلقے کچھ یہ مٶقف رکھتے ہیں کہ

1 کے مطابق بعد از رسول، جانشینِ رسول ﷺ کا اختیار امت کے پاس ہے، رسول اللہ ﷺ یہ اختیار امت کو ودیعت کرگئے ہیں کہ اپنا خلیفہ خود منتخب کریں۔ اس کیلئے وہ آیت برائے شوری کو بنیاد بناتے ہیں۔

2 کے مطابق خلیفہِ رسول خود اللہ کے حکم سے رسول اللہ ﷺ متعین کرگئے ہیں، یعنی رسول اللہ ﷺ کا جانشین منصوص من اللہ ہوگا۔ اس کیلئے سب سے اہم واقعہ، رسول اللہ کے آخری حج کے بعد واقعہ غدیرِ خُم کو بنیاد بناتے ہیں۔

شوریٰ کی بابت کرنے والے قرآن کی سورہِ شوریٰ کی آیت 38 پیش کرتے ہیں کہ

وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۳۸﴾

"اور جو اپنے رب کو لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے معاملات باہمی مشاورت سے انجام دیتے ہیں اور ہم نے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں"۔

وہ لوگ یہ اصول مطلقاً استعمال کرتے ہیں۔ مگر اللہ قرآن میں یہ بھی کہتا ہے کہ اطاعت کرو اللہ کی اور اسکے رسول کی۔ اب اطاعت کہاں کرنی ہے؟ سورہِ احزاب کی آیت 36 میں اللہ فرماتا ہے کہ

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہ، ۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ۔۔

"اور کسی مؤمن اور مومنہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے"۔

یعنی کسی کو اللہ اور رسول پر تجاوز و اختیار نہیں کہ وہ اپنی من مانی کریں۔

دوسری طرف واقعہ غدیر کیا ہے؟ یہ بات ہے رسول اللہ ﷺ کے آخری حج کی، جب رسول اللہ ﷺ نے عربستان میں اعلان کروا دیا کہ دس ہجری کا حج رسول اللہ ﷺ ادا کرینگے اور جو مسلمان شرکت کرنا چاہے کرے، عرب کے تمام علاقوں سے کم و بیش سوا لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی۔ بعد از حج واپسی کے رستے پہ ایک مقام آیا جسے غدیرِ خُم کہا جاتا تھا۔ اس مقام کی نوعیت کچھ ایسی تھی جیسے ریلوے جنکشن کو ہوتی ہے۔ اس غدیری اسٹیشن سے عرب کے مختلف حصوں کے لوگ جدا ہونے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ

يَا أيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَا اُنزِلَ إلَيكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إنَّ اللهَ لاَ يَهْدِيْ الْقَوْمَ الْكَافِرِيْنَ

"اے رسول! اس پیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا اور اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے"۔

اس حکمِ خدا کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو روکا، جو آگے نکل گئے تھے انکو واپس بلایا اور جو زرا پیچھے تھے انکا انتظار کیا۔ جب سب جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے پالانوں اور کچاوں کا منبر بنوایا۔ خود جلوہ آفروز ہوئے اور ایک مفصل خطبہ جس میں خدا کی حمد و ثنا، اہم فرمانِ الہی جیسا کہ آیت اوپر لکھی ہے کہ یبلغ۔۔ پہنچا دیجئے! اور آئمہِ معصومینؑ کے تعارف و ولایت کے بعد مولا علیؑ کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا

مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ

یعنی جس جس کا میں مولا ہوں، اس اسکا یہ علیؑ مولا۔۔ اس موقع پہ حارث بن نعمان فہری موجود تھا، رسول اللہ ﷺ سے کہتا ہے کہ آپ ﷺ نے کہا اللہ ہے، ہم نے مانا، آپ ﷺ نے کہا آپ ﷺ رسول ہیں، ہم نے مانا، آپ ﷺ نے وحی کا کہا ہم نے مانا مگر آیا کہ یہ جو اعلان آپ نے کیا ہے، یہ آپ نے اپنی طرف سے کیا ہے یا اللہ نے حکم دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ خود خدا کا حکم ہے تو جسارت کرتے ہوئے نکل پڑا کہ اگر اللہ کا حکم ہے تو خدا مجھ پہ عذاب نازل کرے، کچھ قدم چلا ہی ہوگا کہ آسمان سے ایک کنکر گرا جو ملعون کے آر پار ہوگیا اور وہ موقع پر ہی ابراہا جیسے غرور و سرکشی کے ہمراہ جہنم واصل ہوگیا۔

کیا عیدِ غدیر وفاتِ حضرتِ عثمان پر منائی جاتی ہے؟ ایک سب سے بڑا اعتراض و اشکال جو اس روز پر اٹھایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ پیروانِ ولایت و امامت یہ خوشی حضرت عثمان کی وفات پر مناتے ہیں یا انکی وفات کے بعد چونکہ مولا علیؑ خلیفہ بنے تو اس بات کی خوشی ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا حضرت ابو بکر و حضرت عمر بھی اسی بات پر خوش تھے؟ کیونکہ بروایتِ حضرت ابو ہریرہ اعلانِ غدیر کے بعد حضراتِ شیخین مولا علیؑ کے پاس آئے اور انہیں مبارک باد دی کہ آج سے آپ ہمارے اور تمام مسلمانوں کے مولا بن گئے ہیں۔

اسی طرح ایک روایت ملتی ہے کہ ابو طفیل زید بن ارقمؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے لوگوں سے حلفاً پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جس نے رسول اکرم ﷺ کوغدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہو: "کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟ اُنہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اُس کا علیؑ مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو بھی اُسے دوست رکھ، اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ " (سیدنا علیؓ کی اس گفتگو پر) بارہ (12) آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے اس واقعہ کی شہادت دی۔

عن زيد بن أرقم، قال: نَشَدَ عليّ الناس: من سمع رسول الله ﷺ يقول يوم غدير خم: ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ قالوا: بلٰي، قال: فمَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه۔ فقام أثنا عشر رجلاً فشهدوا بذلک۔

1۔ طبراني، المعجم الاوسط، 2: 576، رقم: 1987

2۔ هيثمي، مجمع الزوائد، 9: 106

3۔ ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45: 157، 158

دوسری بات یہ کہ واقعہ خُمِ غدیر اٹھارہ زی الحجہ، سن 10 ہجری کا ہے۔ جبکہ حضرت عثمان پر قاتلانہ حملہ اس واقعے کے پچیس سال بعد پیش آیا۔ اور یہ بھی فلحال واضح نہیں کہ تاریخ اٹھارہ تھی یا بارہ زی الحجہ؟

ایک نظر یہ اعتراض مان بھی لیا جائے تو پھر برادرانِ اسلام کی ایک بڑی تعداد میں یہ مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے اور ٹھیک اسی روز کو ہی وفات پائی تو وہ برادران جو بارہ ربیع الاول کا جلوس نکالتے ہیں، آیا کہ وہ پیدائش کا جلوس نکالتے یا وفات کا؟ پیدائش و وفات کا ایک ہی دن ہے تو پھر انکو کیا کرنا چاہئے؟ کوئی بھی شخص رسول اللہ ﷺ کی حرمت سے زیادہ محترم تو نہیں کہ میعارات بدل دیئے جائیں، پیمانہ تبدیل کردیا جائے، کسوٹی مختلف ہو!

واقعہِ غدیرِ خُم کا جشن و خوشی رسول اللہ ﷺ کے ہوتے ہوئے، رسول اللہ ﷺ کے سامنے صحابہ کرام کا خوشی منانا، یہ یہ صحابہ کرام تک کے عمل سے ثابت ہے۔ جبکہ جنکو غدیر پر اعتراض ہیں، ابہام ہے۔۔ درحقیقت غدیر پر ابہام نہیں، انکی عقل مبہم ہے، انکی ذات تک مبہم ہے۔

جشنِ غدیر باقاعدہ تاریخی اسناد سے تواتر سے منایا جاتا رہا ہے۔ مصر کی خلافتِ فاطمیہ میں حاکمِ وقت دربار لگایا کرتا ہے، اس روز نئے لباس پہنے جاتے تھے، حتیٰ کہ دو رکعت نماز بطور عیدِ غدیر پڑھی جاتی تھی۔ قاضی بٹھایا جاتا ہے۔ اونٹوں کے کچاوے اور پالان رکھے جاتے اور حاکم کے دربار میں غدیر کی منظر کشی کی جاتی تھی۔ عیدی بانٹی جاتی تھی۔ نئے پکوان تیار کئے جاتے تھے۔ یعنی اس روز کو بالکل ایسے ہی منایا جاتا رہا جیسے عیدین۔

عیدِ غدیر بدعت نہیں، تکمیلِ اسلام کی سند ہے، حکومتِ اسلامی کے غلبے کا نام ہے، نظامِ اسلامی کے غلبے کا نام ہے۔ اور نہ ہی یہ فضیلتِ مولا علیؑ کا اعلان ہے، کیونکہ مولا علیؑ کے فضائل ڈھکے چھپے یا کم نہیں۔ بلکہ یہ مولا علیؑ کی حکومت کے اعلان کا نام ہے۔ اعلانِ غدیر کے بعد خدا فرماتا ہے کہ

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا۔۔

"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا"

غدیر یعنی ولایتِ علیؑ کا اعلان اور ولایتِ علیؑ عینِ اسلام ہے۔ اور اسلام ولایتِ علیؑ مکمل ہوتا ہے۔ پس جو کوئی ولایتِ علیؑ سے دور ہے، اسکا اسلام مکمل نہیں، اسکا ایمان مکمل نہیں۔ اور جو کوئی یہ پیغام پہنچ جانے کے بعد بھی انکاری ہے تو وہ بڑے گھاٹے میں ہے کیونکہ

وَمَن یبتغ غیر السلام دیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَھو فِی الآخرة من الخاسرین۔

"اور جو اسلام کے علاوہ دین تلاش کرے گا وہ دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں سے ہوگا"۔