1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد نسیم رنحوریار/
  4. مولانا محمدحنیف شھید

مولانا محمدحنیف شھید

یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور اس میں بسر کرنے والی زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ صبح سے لیکر شام تک اس دنیا میں بہت سے لوگ اپنے آنے اور جانے کا سفر کرتے ہیں۔ اس میں بعض لوگ بقضائے الہی مرجاتے ہیں، کوئی خطرناک بیماری کے باعث اپنی زندگی سے محروم ہوتے ہیں۔ الہی نظام کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہر زندہ مخلوق موت سے انکار نہیں کر سکتی اور نہ اسکی مقرہ مدت میں تبدیلی کی قوت رکھتی ہے۔

موت کی کئی اقسام ہیں جس میں سب سے حیثیت رکھنے والی اور بلندمقام کی موت شھادت ہے۔ شھادت ایک ایسی تمناء ہے کہ جسکی چاہت ہمارے پیغمبر اسلام نے بھی کی۔ شھادت وہ عظیم موت ہے جسکا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں بھی کیا کہ شہدا کو مردہ نہیں بلکہ زندہ کہے یہ لوگ زندہ ہیں آپ نہیں جانتے مگر میں جانتا ہوں کہ شھید زندہ ہے مردہ نہیں۔ اسی طرح شھادت والی موت پہ فرش سے لیکر عرش تک مخلوقات فخر کرتی ہیں۔ شھادت وہ لفظ ہے کہ اسلامی تاریخ کے باب اول کا آغاز بھی اس عظیم مرتبہ رکھنے والے لفظ سے شروع ہوا ہے۔ شھادت پانے والے حضرات عالم اسلام میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر مطالعہ کریں تو اسلام کی تاریخ شھدا سے بھری ہوئی ہے۔

۲۷ ستمبر کی ستمگر شام کو چمن شہر کے وسط مین بازار تاج روڈ پر ایک خوفناک دھماکہ ہوا کہ جس میں خادم انسانیت، عوام دوست شخصیت مظلوموں کے ترجمان اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل حضرت مولانا محمدحنیف ؒ شھید ہوئے۔ بیک وقت شہر کے علاوہ پورے ملک پر غم اور افسردگی کی فضا قائم ہوئی۔ ہرآنکھ اشکبار تھی ہرتنطیم کے اعلیٰ سے لیکر ادنیٰ تک افراد غم سے نڈھال۔ کیونکہ شھید اسلام حضرت مولانا محمدحنیفؒ کی جہادی سیاسی قبائلی اور جماعتی خدمات شہر کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے مظلوم اور دین دار مسلمانوں پر عیاں تھی۔ مولانا آغاز طالب علمی سے جمعیت علماء اسلام کے مختلف چھوٹے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ تحصیل علم کے بعد مسلمانوں کی رہنمائی کیلئے اپنے آبائی گاؤں ملت آباد میں ایک عظیم درسگاہ کی داغ بیل ڈالی جس میں عرصہ دراز سے صوبے کیساتھ ساتھ افغانستان کے عوام بھی مستفید ہوتے رہے۔ مولانا شھیدؒ ہمیشہ حق کے ساتھی اور باطل کیلئے سیسہ دیوار کا کردار ادا کرتے تھے۔ جب بھی صوبے اور ضلع کی سطح کے عوام پر برا وقت آتا تو شھید اسلام صف اول کاکردار ادا کرتے اور ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے۔

حکومت اور عوام کے درمیان ہمیشہ نیک اور انتہائی خوش اسلوبی سے ہر مسئلے کا حل نکالتے۔ ۳۰ سالوں سے پاکستان کے جنرل ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیتے۔ یہ شھیداسلام کی پر امن پاکستانی سیاستدان کی ایک عظیم خوبی اور سیاسی صلاحیت ہے کہ آج تک شھیداسلام کے الیکشن پر کوئی قسم چھوٹی بڑی لڑائی نہیں ہوئی، حتیٰ کہ کئی بار شھید اسلام یہ سیٹ جیت چکے تھے۔ وہ سادہ مزاج کے مالک تھے، نہ گارڈ نہ کوئی اسلحہ وغیرہ اپنے پاس رکھتے، بلکہ وہ اللہ کے توکل پر رہتے۔ شھید اسلام جمعیت علماءاسلام پاکستان کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمٰان کے انتہائی نزدیکی ساتھی تھے، جو ہر وقت ملکی صورت حال و جماعتی پالیسی پر ایک دوسرے سے صلاح و مشورے کرتے تھے۔ اسکے علاوہ شھیداسلام پاکستان کے عظیم علماءکرام سے سیاسی بصیرت حاصل کرنے کی بنا پہ انکے شاگرد تھے۔ وہ ہمیشہ اسلام و ملک کیخلاف سازشوں کیلئے ایک رکاوٹ تھے۔ جب بھی اسلام، پاکستان، علماء اور مدارس کیخلاف کوئی پلان تیار ہوتا تو شھید اسلام عین موقع پر اسکا ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور دشمن عناصر کو اسلام وطن اور مدارس کیخلاف پالیسی بننے یا استعمال نہیں ہونے دیتے۔ دہشتگردوں نے بہت بے دردی اور بے رحمی سے شھید کرکے ملک و قوم کو ایک عظیم دانشور ممتاز عالم دین سے ہمیشہ کیلئے محروم کر دیا۔