1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد نسیم رنحوریار/
  4. مخلوط نظام تعلیم

مخلوط نظام تعلیم

آج کا مخلوط تعلیمی نظام اپنے ساتھ ساتھ خطرناک نتائج چھوڑ کر جا رھا ھے۔ یونیورسٹی میں بڑھتی ہوئی یورپی فضا کی لہر اس حد تک پھیل گئی ہے کہ جس کو قابو کرنا ناممکن سا ہو گیا ہے۔ پاکستان میں چھوٹی کلاسز سے مخلوط تعلیم کا آغاز کرکے بچوں کی ذہن سازی کر دی جاتی ہے تاکہ جوان ہو کر کوئی مشکل پیش نہ آئے کہ ہم آزاد خیال لوگ نہیں ہیں۔ میں حیران ہوں ساتویں کلاس کے سٹوڈنٹ وہ بھی گرل فرینڈ اور بواے فرینڈ کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جس قوم کی آٹھویں جماعت کی طالبہ ناجائز فعل سے حاملہ ہو جائے اس قوم میں ہوس پرستی کا بازار گرم ہو جاتا ہے انسانیت جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔ کالجز، یونیورسٹی میں گرل فرینڈ ایک عام معولی بات سمجھی جاتی ہے۔ کسی کی عزت کے ساتھ کھیلنا ان کی تصاویر دوستوں میں شئیر کرنا، ڈیٹ پر جانا، رومینس وغیرہ ان باتوں کو اب صرف گپ شپ سمجھا جاتا ہے۔

میں حیران ہوں مرد عورت کی عزت تک اتنی آسانی سے کیسے پہنچ جاتا ہےمیں لڑکیوں کی تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں، مگر آپ بتائیں ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جس میں عورت کی عزت و عصمت عورت کا مقام عورت کا وقار عورت کی شرافت سب کچھ کھو جائے۔ اب بڑھتا ہوا فیشن، آزادی ہاسٹلز میں ہونے والے شرمناک فعل یہ سب اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہم پر عذاب سے کم نہیں ہے۔ اس جدید دور میں بہت سے واقعات رونما ہوئے کہ جسکا کنٹرول ناممکن تھا اور اسی بدنامی اور غلامی کی ذلت سے معاشرے کے بہت سے چھوٹے بڑے نے خودکشی کرکے غمزدہ کردیا۔

دوسری بات ہمارے الیکٹرونک میڈیا کی ہے جو وقتاً فوقتاً نوجوان نسل کو اپنے نشریات سے مغربی تہذیب بتاتے رہتے ہیں۔ اور باقاعدہ پاکستانی ڈرامے ان کی راہ مزید ہموار کر رہے ہیں۔ میں والدین پر حیران ہوں، اللہ جانے ان کو کیا ہو گیا ہے جان بوجھ کر اندھے بہرے گونگے بن چکے ہیں اک زمانہ تھا والدین اولاد پر مکمل نگاہ رکھتے تھے اور اولاد بھی والدین کا سہارا بن جاتے تھے، خوب خدمت کرتے دعائیں لیتے تھے مگر اب والدین قصوروار ہیں اپنی اولاد کو خود جہنم کے گڑھے میں پھینکنا چاہتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے اولاد بوڑھے والدین کو اولڈ ہاوس میں چھوڑ آتے ہیں۔ تعلیم ضرور حاصل کریں مگر شعور حاصل کرنے کے لیے مگر ہم روز بروز بے شعور اور بے دین ہو رہے ہیں۔ آزاد خیال لوگ میری مضمون سے اختلاف کرسکتے ہیں ان کا کوئی قصور نہیں ان بیچاروں کو ماحول ہی ایسا فراہم کیا گیا ہے۔ دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں حاصل کریں تا کہ ہم اچھے انسان کے ساتھ ساتھ اچھے مسلمان بھی بن سکیں۔

میرا شکوہ والدین سے ہے آپ کی اولاد آپکے ہاتھوں سے نکل چکی ہے، آپ صرف اب اولڈ ہاوس جانے کی تیاریاں کریں۔ ایسی اولاد پیدا کرتے جو موت کے بعد آپکے لیے قرآن پڑھتے دعا کرتے آپکو قبر میں راحت دیتے۔ مگر آپ نے ان کو یورپ کے حوالے کر دیا ہے۔ نوجوان نسل سے گزارش ہے خدارا گرل فرینڈ کے کلچر کو اب چھوڑ دو دنیا مکافات عمل ہے آج آپ کسی کی بہن کو ٹائم پاس بناو گے تو کل آپ کی بہن بھی کسی کی ٹائم پاس گرل فرینڈ ہوگی پتہ نہیں ہم کہاں جارھے ہیں۔ ہم اپنی منزل سے بھٹک چکے ہیں۔ دین دار لوگوں سے نفرت کرنا ان کو حقیر سمجھنا اسی وجہ سے ہم پر اب کافر بھی ہنستے ہیں کہ مسلمان اب اپنے طریقے چھوڑ کر ہمارے طریقے اپنا رھا ہے۔ ہم تو نام کے مسلمان رھ گے ہیں۔ خدارا کچھ تو سوچیے، صرف افسوس اور حیرت کرنے سے کچھ نہیں ہو گا، جس جس نے یہ کالم پڑھا ہے وہ خودہی آج سے عہد کرے کے وہ اپنی حد تک اس بےحیائی کے خلاف جتنا کر سکتا ہے وہ کرے گا۔ یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے معاشرے سے یہ مرض کسی نہ کسی طریقے سے ختم کریں۔ کیونکہ معاشرے میں ہماری مائیں بہنیں بھائی سب کے رشتہ دار رہتے ہیں اگر ہم کسی کے ماں بہن بی بی کی تصایر یا ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں تو خدانخواستہ کل کوئی ہماری فیملی کے کسی نہ کسی بندے کا کوئی عمل دوہرائے گا۔