1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد نسیم رنحوریار/
  4. مسئلہ کشمیر

مسئلہ کشمیر

کشمیربرصغیرکی وہ جنت ہے۔ کہ جسکا نعم البدل پورے ایشیاء میں کہیں نہیں ملتا۔ کشمیر کی اونچائیاں جتنی خوبصورت ہیں۔ اس سے زیادہ وہاں کی وادیاں قدرت کا شاہکار ہیں۔ کشمیر کا دلفریب موسم اور وہاں کی ہریالی وہاں کی برف پوش پہاڑیاں اور وہاں پر بسنے والے لوگ، یہاں تک کہ کشمیر کے جنگلات کے سوکھے ہوئے درخت اتنے خوبصورت ہیں کہ دیکھنے کے بعد زبان پر ایک کلمہ جاری ہوتا ہے۔ یعنی تم اپنے پروردگار کی کونسی کونسی نعمت کو جھٹلاؤگے۔

قارئین کرام کشمیر کی خوبصورتی کے بارے میں جتنے بھی مضامین لکھ لئےجائیں وہ کم ہی لگتے ہیں۔ کیوں کہ اللہ نے اس خطہ سرزمین کودنیا سے الگ ہی حسن عطاء کیا ہے۔ اس سرزمین کی مثال ایسی ہے، جیسے بہت سی خواتین کے درمیان اور رنگین لباس میں ملبوس اور خوبصورتی کی دنیا کے بے نظیر دلہن۔ اور آخرکون تھا، وہ شخص جس نے اس حسین و جمیل دلہن نما کو خدا کے پوشیدہ کئے ہوئے خزانوں سے نکال کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اور اسے جنت ارض بنادیا۔

ایک روایت کے مطابق لفظ کشمیر لفظ کاش اور میر کا مرکب ہے، اسکی تفصیلات یوں ہیں کہ اللہ کے ایک بہت پیارے نبی حضرت سلیمان ؑ تھے۔ جنکو اللہ نے بیک وقت دو عہدوں نبوت اور بادشاہت سے نواز رکھا تھا۔ اور صرف انسان ہی نہیں بلکہ بہت سی دوسری دنیائی مخلوقات کیساتھ ساتھ غیبی مخلوقات سے یعنی جنات پریاں بھی حضرت سلیمان ؑ کی رعایا کی حصہ تھی۔ اللہ نے آپ پر معجزات کی بے بہاں خزانے کھول رکھے تھے کہ جنکا ذکر انسان سن کر حیران وپریشان ہوجاتاہے۔ اور انہی معجزات میں سے ایک بہت بڑا معجزہ تخت شاہی تھا۔ جوکہ بحکم خدا آپکے اشاروں پر پرواز کرتا اور آپ اس تخت پر بیٹھ کر دنیا کی سیر کیاکرتے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ اپنے معجزاتی تخت پر پرواز کررہے تھے کہ اچانک آپ کی نظر ایک وسیع و عریض پانی کی ذخیرے پر موجود پہاڑ کی خشک چوٹی پر پڑی۔ اس خطے کو دیکھ کر آپ نے تخت کوچھوٹی پر اترنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ تخت سے اتر گیے۔ آپ نے اس چوٹی پر کھڑے ہوکر جب آس پاس کا جائزہ لینا شروع کیا۔ تو آپ کو حد نظر پانی ہی پانی دیکھائی دیا۔ آپ نے جب یہ خوبصورت منظر دیکھا۔ تو آپؑ بہت خوش ہوئے اور پھر اچانک اسے وزراء کیساتھ مشورے کی ایک مٹینگ تشکیل دی۔ اس مٹینگ کے دوران آپ نے فرمایا۔ کہ اگر اس جھیل سے پانی کو خارج کردیاجائے تو اسکی تہہ سے بہت ہی سی حسینہ و جمیل اور زرخیز وادی نمودار ہوگی۔ اور اسی وادی میں انسانوں کی آبادی ممکن ہوسکے گی۔ وزراء نے حضرت کی یہ ارادہ دیکھ کرپہلے تو تمام شامل مخلوقات نے خوشی میں آپ کی ہاں میں ہاں میں ملائی، پھر اچانک ایک سوال پیدا ہواکہ آخر اس سمندر نما جھل سے پانی کو کون نکالے گا؟ چونکہ اس میٹنگ میں حضرت کی حضور میں بہت سی مخلوقات کی سردار موجود تھیں۔ اور انہی سرداروں میں جنات کے سردار جسکا نام کاش جِن تھا وہ بھی موجود تھا۔ ساتھ میں پریؤں کی ملکہ، جسکی نام میر تھا وہ بھی موجود تھی۔ لہذا جنات کا سردار کاش ملکہ پریستان کا عاشق تھا۔

موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میدان میں آگیا۔ اور کہنے لگے۔ کہ میں یہ فریضہ سر انجام دینے کیلئے تیار ہوں۔ لیکن یہ کام انجام دینے سے پہلے اللہ کی نبی کے سامنے میری ایک خواہش ہے تواس پر سلیمانؑ نے فرمایا تمھارے خواھش کیا ہے۔ تو کاش جِن کہنے لگے کہ اگر میں اس جھل سے پانی نکالنے میں کامیاب ہوگیا تو آپؑ میرے شادی یعنی نکاح میر پری سے کردینگے۔ تو سلیمانؑ نے اسکے فرمائش قبول کرتے ہوئے اسکوکام انجام دینے کا حکم دیا تو حضرت کا یہ اعلان سنتے ہی کاش نے دوڑلگادی۔ کہ جتنی جلدی ہوسکے وہ جھل کو خشک کردے، چنانچہ کم وقت کے بعد کاش نے اپنے کوششوں سے بارہ کا پہاڑ کاٹ کر اس میں سے پانی کا راستہ بنادیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پانی سے ایک خوبصورت حسین وجمیل وادی نمودار ہو گئی۔ اس واقعہ کے بعد آپؑ نے اپناوعدہ پورہ کرتے ہوئے جِن پری کی شادی کاش جِن کے ساتھ کردی۔ اور پھر کاش اور میر کی نسبت سے ہی اس جگہ کانام کاش میر رکھ دیا۔ جوصوتی تغیر کے باعث بعد میں کشمیر کے نام سے مشہور ہوگیا۔

تاریخ کے بڑے بڑے دانشور اس کشمیر کو باغِ سلیمان بھی کہاجاتا ہے۔ اب اس کاش میر سے کشمیر بنا، جنت جیسی آبادی کے متعلق دس اصل حقائق پڑھیں
۱۔ ۱۹۴۷ میں برصغیر کی تقسیم کے وقت ۵۸۵ کے قریب خودمختار ریاستیں تھیں۔ ان ریاستوں کو برطانوی حکومت نے حق دیا کہ وہ پاکستان یا بھارت کیساتھ رہنے کا فیصلہ مذھب کی بنیاد پر کر سکتی ہے۔
نمبر۲ ریاست جموں کشمیر میں مسلمان اکثریت زیادہ تھی۔ مگر حکمران مہاراجہ ہری سنگھ ہندو تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ کشمیر ریاست کی آزادی بحال رہے۔ اس نے پاکستان اور بھارت سے سٹینڈ سٹل ایگری منٹس کئے۔
نمبر۳۔ اکتوبر۱۹۲۷ میں ہری سنگھ نے برطانوی فوج کے مسلم سپاہیوں سے اسلحہ ضبط کرکے کشمیر کی ہندی آبادی میں بانٹنا شروع کیا۔ تو مسلم آبادی مشتعل ہوگئی اور بغاوت شروع کردی۔
نمبر۴کشمیری مجاھدین کو پاکستان کے پشتون قبائلوں کی بھی مدد حاصل ہوگئی۔ صورت حال سے گبھراکر ہری سنگھ نے بھارت سے فوجی مدد مانگ لی۔ ہندوستان نے اس شرط پر ہری سنگھ کی مدد کرنے کا وعدہ کیا کہ وہ کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کردئیے۔
نمبر۵۔ ہری سنگھ نے اکتوبر ۱۹۴۷ میں کشمیر کا الحاق ہندوستان سے کرا دیا۔ اور خود دہلی میں چھپ کر پناہ لے لی۔
نمبر۶۔ پاکستان نے اس الحاق ماننے سے انکار کردیا۔ کیونکہ ابھی سٹینڈ سٹلز معاہدہ قائم تھا۔ اور ہری سنگھ الحاق کی کسی دستاویز پر دستخط کرنے کا مجاز نہیں تھا
نمبر۷۔ ۲۷ اکتوبر کو بھارتی فوجیں کشمیر میں داخل ہوگئیں جس پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑگئی۔
نمبر۸۔ بھارت وزیراعظم جواہرلال نہرو نے کشمیریوں سے آزادی کا وعدہ کیا اور اپنی وعدے پر قائم رہنے کی بڑی قسمیں کھائیں۔
نمبر۹۔ اسے وعدے کے مطابق بھارت کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ لے گیا۔ جہاں ۱۳ اگست ۱۹۴۸ کی قرارداد میں طے پایا کہ کشمیر ی آزادی کے ذریعے فیصلہ کریں۔ کہ کشمیر پاکستان یا بھارت کیساتھ رہنا چاہتے ہیں کشمیریوں کو حق حاصل ہے۔
نمبر۱۰۔ مگر جنگ ختم ہوتے ہی بھارت آزادی سے مُکرگیا۔ اور آج تک انکاری ہے۔ کشمیری بھارتی جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حالانکہ کشمیریوں کے دل پاکستان کیساتھ دھڑکتے ہیں پھر بھی آزادی سے محروم رکھے ہیں۔