جہلم ندی کی موجیں انہیں جھولے جھلا رہی تھیں۔ لائف جیکٹس سے کبھی ہوا نکال کر گہرے پانی میں غوطہ زن ہو جاتے اور کبھی منہ سے پھلا کر ندی کے اندر دور تک چلے جاتے۔ کنارے پر آتے تو توپوں کی گھن گرج اور بندوقیں چلنے کا شور سن کر پہاڑی تودوں کے پیچھے چھپ جاتے۔
ان کی نگاہیں افق کے پار اس مقام تک پہنچنا چاہتی تھیں جہاں توپیں چلنے کے دھماکے ہو رہے تھے۔
"ہاشم بھائی! مجھے بھوک لگی ہے"۔ سکندر جو عمر میں کم دکھتا تھا بولا۔
"میری بھی یہی حالت ہے"۔ ہاشم نے جواب دیا۔ "جہلم ندی میری دوست ہے۔ بچپن اس کے سنگ گزرا، جوانی کا بہاؤ اس کے ساتھ چلا ہے۔ یہ ہمیں بھوکا نہیں مرنے دے گی۔ اس نے مجھ سے کبھی پہلو تہی نہیں کی"۔
وہ اسے لے کر ندی کنارے درختوں کے ایک جھنڈ میں آ گیا۔ خوبانی ابھی کچی تھی اور بادام کی ڈالیاں ہری بھری۔ کچھ دور انہیں آڑو بھی مل گئے۔
"شام ڈھل رہی ہے اس وقت ادھر رکنا بہتر ہوگا"۔ دونوں اسی جھنڈ میں چھپ گئے۔
مکانات کے اندر سے جہاں گھر کی بیویاں اپنے شوہروں کے لیے کھانے پکانے میں مصروف تھیں۔ دھواں بلند ہو کر فضا میں پھیل رہا تھا۔ مویشی چراگاہوں سے آہستہ آہستہ گھروں کی طرف پلٹ رہے تھے جن کے کھروں سے اڑی ہوئی خاک کا غبار نور شفق سے رنگین نظر آ رہا تھا۔ یہ نور شفق تھا یا انسانوں کے خون کا رنگ جو بندوق کی گولیوں سے اڑ کر آسمان کو رنگین کر گیا تھا۔
وہ وہاں کچھ دیر سستانے کو لیٹ گئے۔
آنکھ لگی ہی تھی کہ گولیوں کی تڑ تڑ سے جاگ گئے۔ بچے عورتیں بھاگ اٹھے۔ جو مرد نظر آتا اسے گرفتار کر لیا جاتا یا گولیوں سے بھون دیا جاتا۔ وہ اپنی کچھار میں چھپ کر سب دیکھ رہے تھے۔ دو تین گھنٹے کی تلاش کے بعد فوجی واپس چل پڑے۔ بم دھماکے ہوئے اور کئی گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
وہ افسردگی کے عالم میں ندی کنارے واپس آ گئے۔ ساری رات چلتے رہے۔ بھوک ستانے لگی تھی۔ کچے پھلوں سے گزارا نہیں ہوتا۔ سکندر کا گاؤں اب قریب تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ادھر سخت پہرہ ہوگا۔
وہ متواتر دو دن اور تین راتوں سے اسی ندی کے کنارے چلتے آرہے تھے۔ پورا کشمیر شورش زدہ ہو چکا تھا لیکن انہیں یقین تھا کہ ڈھونڈنے والے ابھی اننت ناگ کے اردگرد ہی دھیان دے رہے ہوں گے۔ کچھ دور ایک بستی نظر آئی۔ بستی سے دھواں اٹھ رہا تھا اسے روند دیا گیا تھا۔ وہ بستی پہنچے تو ان کے روبرو وہی خوفناک منظر تھا جس کے وہ عادی ہو چکے تھے۔ ہاشم نے سکندر سے کہا، "تم باہر ٹھہرو میں اندر جا کر کسی گھر سے کھانا ڈھونڈتا ہوں"۔
گلیاں شکستہ مکانوں کے ملبے سے اٹی پڑی تھیں۔ کوئی متنفس دکھائی نہیں دیتا تھا۔ لوگ گھروں کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ دیواروں کے ٹوٹے پھوٹے حصے شرابیوں کی طرح جھک رہے تھے جیسے گرا ہی چاہتے ہوں۔
وہ ایک دو گھروں میں گھسا وہاں اسے کھانے کا کچھ سامان مل گیا۔ کھانا لے کر باہر آ رہا تھا کہ ایک فوجی گاڑی آتی نظر آئی۔ وہ بھاگ نکلا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک گھاٹی میں کچھ لاشیں پڑی تھیں وہ ان کے درمیان لیٹ گیا۔ اس کی بد قسمتی تھی کہ گاڑی بھی ادھر آ کر رکی۔ وہ اس امر کی انتہائی کوشش کرنے لگا کہ اس کے جسم میں مُردوں جیسی بے حسی اور سختی پیدا ہو جائے۔
سپاہیوں نے اِدھر اُدھر ٹہلنا شروع کر دیا۔ کچھ گھروں کی تلاشی بھی لی۔ وہ چپ لاشوں کے درمیان لیٹا رہا۔ ہاشم کے پہلو میں ایک خوبصورت بالوں والی نوجوان لڑکی کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ اس کا بازو ہوا میں بلند تھا اور اسی حالت میں بے جان ہو کر رہ گیا تھا جیسے مرنے کے بعد بھی ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کر رہی ہو۔
سپاہی گاڑی کے پاس لوٹ آئے۔ اس میں سے دو لاشیں نکال کر اسی کھڈے میں پھنک دیں۔
"صاحب، ان پر مٹی ڈال دیں"۔ ایک سپاہی کی آواز سنائی دی۔
"نہیں۔ پڑوسی گاؤں سے ابھی ایک دو آتنک وادی لانے ہیں اس کے بعد اسے بھر دیں گے"۔ جواب بڑا کٹھور تھا۔
گاڑی چلی گئی لیکن ہاشم میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ لاشوں کے درمیان سے نکل کر بھاگ سکے۔ دونوں لاشیں نوجوان لڑکوں کی تھیں۔ ایک اتنا پر سکون تھا جیسے سو رہا ہو اور دوسرے کے سر کو کچل دیا گیا تھا۔ سر سے بہتا ہوا خون اس کے جسم کے ساتھ چپک گیا۔
وہ کافی دیر ادھر پڑا رہا۔
ہوا میں کافی خنکی تھی اور سورج بھی طلوع ہونے والا تھا۔ یہاں سے نکلنا چاہیے تھا۔ اوپر گری ہوئی لاشیں ہٹا کر وہ اٹھا تو اس کی نظر لڑکی پر پڑی۔ لڑکی کا جسم اتنا بھر پور اور نرم و نازک تھا کہ اسے مردہ تصور کرتے ہوئے دل لرزتا تھا۔ ہاتھوں پر مہندی رچی ہوئی تھی۔ کالے سیاہ بالوں کو بہت محنت سے بنایا گیا تھا۔ سانولی رنگت اور کپڑے نئے نویلے۔ شکل سے پنجابن لگتی تھی۔ شاید نئی نئی دلہن تھی۔ اس کی گردن کے نزدیک چار چھوٹے چھوٹے سرخ نشان تھے جو غالباً اس کے خاوند کے بوسوں کی گرم جوشی کی یاد گار تھے۔ ہاشم کے جذبات میں تلاطم برپا ہوگیا۔ ایک لمحے کے لیے وہ خطرہ، تھکن، لاشوں کی بدبو، سب بھول گیا۔ اسے اپنی بیوی یاد آ رہی تھی۔ پلوامہ کے حملہ والی رات اس کی شادی تھی۔ اگلے دن وہ اس کے لیے شہر سے تحفہ خریدنے گیا تھا جب فوج نے گاؤں پر دھاوا بولا۔ ظالموں نے اس کی بیوی کو روندا بعد میں گھر کو بم سے اڑا دیا۔ حجلہ عروسی، اس کی دلہن اور ارمانوں کی قبر بن گیا۔
وہ نئے جوش کے ساتھ ندی کی طرف بھاگ اٹھا۔
سکندر اس کا انتظار کر رہا تھا۔
"یہاں ٹھہرنا خطرناک ہے"۔ وہ سکندر کو ساتھ لے کر چل پڑا۔ ندی کا پاٹ کافی چوڑا تھا۔ سارا دن کبھی ندی کے اندر اور کبھی اس کے کناروں پر موجود درختو ں کی اوٹ میں چلتے رہے۔
"ہم کتنے دنوں میں پار اتریں گے"۔ سکندر کے چہرے سے تھکاوٹ واضح نظر آ رہی تھی۔
"دو ہفتے یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ ہم پانچ چھ کلومیٹر روزانہ سے زیادہ نہیں تیر سکیں گے۔ ٹھہرتے ہوئے، چھپتے ہوئے چلنا ہے"۔
شام ڈھلنے لگی تو وہ کچھ دیر سستانے کے لیے رک گئے۔ شفق کی زر نگاریاں بتدریج تاریکی سے بدل گئیں تو وہ اٹھ گئے۔
ہاشم آج بہت دکھی تھا۔ سکندر کے پاس لیٹا اپنے گاؤں کو یاد کر رہا تھا جو ندی کنارے اسی علاقے میں تھا۔ وہ ایک مرتبہ گاؤں جانا چاہتا تھا۔ کمزوری سے ان کے اعصاب دکھ رہے تھے۔ دونوں کی آواز یکساں طور پر بھدی اور بھاری ہو چکی تھی۔ آنکھیں خوفناک انداز میں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ ان کے ہونٹوں پر یکساں پپڑیاں تھیں۔ چہرے حجامت نہ بننے کے سبب یکساں طور پر مہیب تھے۔
سکندر خاموش اور رونی صورت بنائے بیٹھا تھا۔ چہرے پر انتہائی غم کے آثار نظر آ رہے تھے۔ ہاشم نے دوستانہ لہجے میں بات شروع کر دی تاکہ اس کا غم غلط کر سکے۔ آج وہ سوالوں کا جواب بے دلی سے دے رہا تھا جیسے گفتگو کرنا اس کے لیے ایک تکلیف دہ عمل ہو۔ دور اس کے گاؤں سے بھی دھواں اٹھ رہا تھا۔ ہاشم نے سکندر کی طرف دیکھا اور پوچھا، "قابض فوج ایسا کیوں کرتی ہے۔ کیا کشمیری اس ملک کے شہری نہیں؟"
اس کی آواز یک دم تیز ہوگئی۔ وہ خود بخود باتیں کرنے لگا تھا۔
"میں اپنا علاقہ چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا"۔
"وہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے"۔
"ان کا غصہ کچھ دنوں میں کم ہو جائے گا۔ میں نے کون سا جرم کیا ہے۔ وہ میرا دوست بھی نہیں تھا۔ بس کچھ ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ میں گرفتاری دے دوں گا۔ عدالت مجھے چھوڑ دے گی، میرے ماں باپ ہیں، بہن بھائی ہیں، بیوی ہے۔
میری بیوی بہت اچھی ہے۔ بہت پیاری، بہت حسین، الہڑ مٹیار"۔
وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن خاموش ہوگیا۔ وہ اسے یاد آ رہی تھی۔ کچھ دن پہلے جب وہ ایک دوسرے کی بانہوں میں تھے۔ محبت کی تھی، اکٹھے ہنسے تھے، زور سے ایک دوسرے کو بھینچا تھا۔ وہ پنجابن جس میں مست ہاتھی جتنا زور تھا، جو متشدد محبت کی قائل تھی۔ وہ ناگن جو کاٹ کھاتی، سر نہیں جھکاتی تھی۔ کھلے کھلے انگ، مضبوط ہڈ پاؤں، موٹی کالی آنکھیں: کالے سیاہ بال اور سانولی رنگت والی۔
ہاشم کو وہ خوبصورت لڑکی یاد آ گئی جس کی لاش اس کے پہلو میں پڑی تھی، جس کا ہاتھ مرنے کے بعد بھی علم آزادی کی طرح بلند تھا۔ جس کی موت وہ بیان بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ضرور اس کی بیوی ہوگی۔
ندی کی سطح پر اندھیرا نہ تھا۔ اس کے چہرے پر ایک نور تھا جو نہ جانے کہاں سے آ رہا تھا۔ کشمیر کی زمین کہکشاں معلوم ہو رہی تھی۔ اس میں بعض کیمیائی اجزاء کی آمیزش تھی یا انسانوں کے خون کی جو ستاروں کے انعکاس سے اس کے اندر ایک انوکھی دھندلی سرخی پیدا ہوگئی تھی۔ یہ دھندلی رونق ایک پراسرار راستہ معلوم ہوتا تھا، آزادی کا، پراسرار مقام کا، پراسرار راستہ۔ وہ راستہ جس پر ہزاروں جوانیاں اور لاکھوں عزتیں قربان ہو چکی تھیں۔
"میں پار نہیں جانا چاہتا"۔ سکندر بولا
اس کی آنکھوں میں خیالات کا نم تھا۔
"ہم کشمیر میں ہی رہیں گے۔ وہ کشمیر بھی ہمارا ہے۔ جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو لوٹ آئیں گے۔ " ہاشم اسے سمجھا رہا تھا۔
وہ بڑھتے گئے۔
کئی دن اور کئی راتیں گزر گئیں۔
بالآخر وہ نالائی پہنچ گئے۔ سائیں سہیلی سرکار اور معصوم شاہ غازی کی سرزمین جسے چھوڑنا اور اس پار اترنا سب سے مشکل مرحلہ تھا۔ ندی کی دھاریں تیز اور خطرناک، دونوں طرف فوجوں کا سخت پہرہ۔
وہ اماوس کی رات تھی۔
توپوں کی گھن گرج کے ساتھ اب جنگی جہازوں کا شور بھی شامل ہوگیا تھا۔ میزائل داغے جا رہے تھے اور ڈرونز زاغوں کی طرح مردار کی تلاش میں تھے۔ دونوں طرف مکمل بلیک آؤٹ تھا۔ پہاڑیاں بھی ردائے شب میں روپوش ہوگئیں تھیں اور جنگل غائب۔
وہ ایک بہترین رات جس میں وہ اس پار اتر سکتے تھے۔ ندی بل کھاتی دور تک بہتی نظر آ رہی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ٹھیک خانہ خاور میں جا کر گر رہی ہے۔ ایک سونے کی سڑک تھی جو انہیں شان و تجمل کے مسکن میں لیے جا رہی تھی، ایک پُر امن مسکن کی طرف۔
دونوں نے اپنی لائف جیکٹس میں ہوا بھری اور پانی میں چھلانگ لگا دی۔ ہوا اور پانی کا دھارا انہیں دوسری طرف لے چلا، اس زمین کی طرف جہاں کے باشندے رات کو بے کھٹک سوتے تھے، جہاں امن کی ارزانی، محبت کی فراوانی تھی۔ جہاں عاشق اور معشوق ایک دوسرے سے لپٹ کر سو سکتے تھے۔