یوم آزادی پر سیاسی شخصیات میں جس طرح قومی اعزازات بانٹے گئے اس پر پورا ملک سراپا احتجاج ہے، ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں سے اٹھنے والی یہ آوازیں ملک کے کونے کونے میں پھیل چکی ہیں، اس ملک کا ہر ذی شعور ایک ہی سوال کر رہا ہے کہ کابینہ اور بیوروکریٹس کو تمغے کس اہلیت کی بنیاد پر دیے گئے، کیا اپنی ڈیوٹی ایمان داری سے کرنے پر بھی تمغے دیے جاتے ہیں، اگر ایسا ہے تو پھر اس ملک میں ہر اس شخص کو ایوارڈ دینا ہوگا جو اپنا کام پوری ایمانداری سے کر رہا ہے، کوئی موچی ہے، مزدور ہے یا پھر استاد اور ڈاکٹر، یہ سب بھی تو کام ایمانداری سے کر رہے ہیں، پھر یہ تمغوں سے محروم کیوں؟
آپ تمغے پانے والے وزیروں سے سوال کریں کہ انھوں نے کون سا ایسا غیر معمولی کام کیا ہے جس بنیاد پر تمغہ ملا، وہ خود بھی ناآشنا ہوں گے، ایسی صورت میں ان تمغوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ قومی دنوں پر دیے جانے والے تمغوں اور سرکاری اعزازات پر ہر سال سوال اٹھتے ہیں، عوامی پریشر کے باوجود نہ حکومت کا رویہ بدلا اور نہ پیٹرن، ایوارڈ کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والوں نے بھی اپنا انداز نہیں بدلا، سب ویسے کا ویسا ہی چل رہا ہے۔
حکومت نے وفاقی وزیروں کو دیے جانے والے تمغوں کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ انھوں نے" معرکہ حق"کے دوران پاکستان کا بیانیہ انتہائی احسن انداز میں پیش کیا، اگر ایسا ہے تو پھر پاکستان کے پچاس لاکھ نوجوانوں کو بھی ایوارڈ دیے جائیں کیوں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں نوجوانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے "فرنٹ لائن سولجر "کہا تھا۔ معرکہ حق کے دوران سوشل میڈیا پر پاکستانی نوجوانوں نے جیسے اپنی فورسز کا حوصلہ بڑھایا، انھیں تو تمغوں سے لاد دینا چاہیے تھا اور اگر مجھ سے پوچھیں تو پاکستانی نوجوانوں، یوٹیوبرزاور ڈیجیٹل میڈیا کے دوستوں نے وفاقی وزیروں سے کہیں بہتر انداز میں معرکہ حق اور آپریشن بنیان مرصوص پر بات کی اور اپنی فورسز کی ہمت بندھائی۔
سرکاری اعزازات اور تمغے پانے والوں کو لوگ فخر سے دیکھتے تھے، نوجوان ان جیسا بننے کی خواہش کرتے تھے، ان کو اپنا مرشد اور ہیرو مانتے تھے مگر صد حیف گزشتہ تین سے چار دہائیوں میں، ان تمغوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اب تمغے پانے والے بھی منہ چھپائے پھرتے ہیں اور تمغے دینے والے بھی، دونوں کے پاس بتانے کو کچھ نہیں اور نہ ہی سرکاری اعزازات کا دفاع کر پا رہے ہیں، یہ سب ان حکومتوں اور سیاست دانوں کی وجہ سے ہوا جنھوں نے سرکاری اعزازات اہلیت کی بنیاد پر نہیں، اپنی چاپلوسی کی بنیاد پر بانٹے، کسی نے من پسند صحافیوں اور بیوروکریٹس کی فہرست تھما دی اور کسی نے من پسند تاجروں اور سرمایہ داروں کی۔
اس حوالے سے آصف زرداری خاصے فراخ دل ثابت ہوئے، انور مجید کو محض اس لیے سرکاری اعزاز دے دیا کہ وہ اومنی گروپ کے سربراہ تھے اور زرداری صاحب کے رائٹ ہینڈ، عمر فاروق ظہور کو ایک ہی سال میں دوسری مرتبہ تمغہ دے دیا گیا، محض اس لیے کہ وہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے خلاف گواہ ہے، یوم پاکستان پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی بیوی رباب سکندر بھی ایوارڈ کی حق دار قرار پائی تھی، اب اس کی وجہ میں نہیں بتائوں گا۔
مجھے دکھ بھی ہے اور حیرت بھی کہ حکومت نے تین انتہائی اہم شخصیات کو ایوارڈ سے محروم کیوں رکھا، سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا۔ موجودہ مفلوج نظام اور لولی لنگڑی جمہوریت ان تین "نابغوں"کی بدولت ہی ممکن ہو سکی، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اپنے ان تین محسنوں کو کیسے بھول گئیں، یہ تین"قومی ہیرو"نہ ہوتے تو نواز شریف لندن میں ہوتے۔
لندن پلان کی تکمیل، جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حمایت، نواز شریف کی آٹھ رکنی وفد سے لندن میں ملاقات اور قرآن پر حلف، یہ سب اسی لیے تو تھا کہ ہم عمران خان کو جیل میں پھینکیں تاکہ جمہوریت پنپ سکے۔ اب جمہوریت مضبوط ہوئی یا مفلوج، اس سے قطع نظر، شریف برادران آخری مرتبہ اقتدار تک پہنچ گئے، زرداری صاحب نے بلاول کا راستہ ہموار کر لیا، مریم نواز کی وزارت عظمیٰ فی الحال مشکوک ہے، ایسے میں حکومت وقت کا ان تین ہستیوں کو بھول جانا پوری قوم کے لیے تکلیف دہ ہے۔
اس مرتبہ شعبہ ادب میں صورت حال بہتر رہی، جن شخصیات کو بھی اعزازات دیے گئے، وہ حق دار بھی ہیں اور اہل بھی۔ اس سے قبل تو یہ شعبہ بھی پستی کا شکار رہا، ادبی اداروں کے سربراہاں ملی بھگت سے اپنے من پسند ادیبوں اور شاعروں کی فہرست سرکار تک پہنچاتے اور ان کے اعزازات کے لیے ہاتھ پائوں مارتے۔ اس مرتبہ ایک دو ناموں کے سوا باقی کسی بھی اعزاز پر سوال نہیں آیا، یہ خوشی کی بات ہے۔
حکومت اگر مزید بدنامی اور ذلت سے بچنا چاہتی ہے تو جلد از جلد ایک کمیٹی تشکیل دے اور ان تمام لوگوں سے تمغے واپس لے، جنھیں اہلیت کی بجائے سفارش کی بنیاد پر نوازا گیا۔ سرکار مستقبل کے لیے بھی ایک لائحہ عمل تشکیل دے، ایوارڈز کے لیے قوانین و ضوابط بنائے، سفارشی ٹولے کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور ایک ایسی جیوری بنائے جس پر کسی بھی طرح کا اعتراض نہ ہو، سرکاری اعزازات اور تمغوں کے فیصلے بند کمرے میں کرنے کی بجائے اوپن میرٹ پر کرے تاکہ ان اعزازات کی اہمیت پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔
اگر ان قومی اعزازات کی ایسے ہی توہین جاری رہی تو وہ وقت دور نہیں جب اہل اور قابل لوگ یہ اعزاز قبول کرنے کی بجائے انکار کو ترجیح دیں گے، جب یہ اعزاز محض سفارشی، نااہل اور حکومت کے قصیدے لکھنے والوں کو ملیں گے تو آپ خود سوچیں ایک سچا فنکار اور قلم کار ان اعزازات سے خود کو آلودہ کیوں کرے گا، اب فیصلہ حکومت کے پاس ہے، وہ ان تمغوں کی عزت رکھتی ہے یا پھر اپنے تعلقات بچاتی ہے۔