1. ہوم
  2. کالمز
  3. آغر ندیم سحر
  4. "الائو" کا قیام

"الائو" کا قیام

"الائو" ایک ایساعلمی و ادبی پلیٹ فارم ہے جس نے ادب و ثقافت پر مکالمے اور مذاکرے کے ساتھ ساتھ مشاعروں کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ مشاعرے جو ہماری نئی نسل کی تربیت کا سب سے بڑا اور اہم مرکز ہوا کرتے تھے، اب گروہ بندی اور پارفارمنس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ شاعروں کو محض اس لیے بلایا جاتا ہے کہ وہ سامعین کو انٹرٹین کر سکیں۔ انٹرٹینمنٹ بری بات نہیں مگر اس انٹرٹینمنٹ کے نام مشاعروں اور ادبی تقاریب کا جو حال کر دیا گیا ہے، اس سے تکلیف بھی ہوتی ہے اور خوف بھی آتا ہے۔

شاعر جس کے لفظوں کی خوشبوں سے صرف سامنے بیٹھے سامعین ہی نہیں ایک عالم معطر ہوا کرتا تھا، اب وہ انٹرٹینر بن گیا ہے اور مشاعرہ لوٹنے کی خواہش میں ادب و تہذیب کی تمام حدیں کراس کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور ظلم یہ ہوا کہ سامعین کو متاثر کرنے کی خواہش میں غیرجینوئن لوگوں کو اسٹیج پر بٹھا دیا گیا، اس سے مشاعروں کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل گئی۔

اس بگڑتی ہوئی صورت حال کے بعد ایک ایسی تنظیم کی اشد ضرورت تھی جو ادبی سماج میں تبدیلی کی بات کرتی اورمشاعروں کے اسٹیج پر ایسے قلم کاروں کو بٹھایا جاتا جن کے لفظوں سے واقعی خوشبو آتی ہے۔ "الائو"نے اسی خواہش اور منصوبے کے ساتھ میدان عمل میں قدم رکھا اور پہلا مشاعرہ بائیس نومبر کو سپیئریئر کالج واپڈا ٹائون میں رکھا جس کی صدارت اردو کے ممتاز شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی نے فرمائی۔ اس مشاعرے کی میزبانی پروفیسر شاہد رضا اور ان کی ٹیم نے جس خوبصورتی سے کی، وہ قابل تعریف ہے۔

اس مشاعرے کی سب سے اہم بات سامنے بیٹھی وہ طالبات تھیں جن کی شعری تربیت نظر آ رہی تھی۔ ہماری جامعات اور تعلیمی اداروں کے مشاعروں میں بد تہذیبی کو پروموٹ کرنے والے انٹرٹینر کو بلایا جاتا ہے تو جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہمارے نوجوان صرف انہیں سننا چاہتے ہیں حالانکہ یہ بات سو فیصد غلط ہے۔ نوجوانوں کو اچھا شعر سنانے کی کوشش کرنے والے جانتے ہیں کہ نوجوان کتنا مسرت محسوس کرتے ہیں، میں درجنوں ایسے مشاعرے پڑھے جہاں نوجوانوں نے سنجیدہ شاعری پر زیادہ کھل کر داد دی، ایسی شاعری کو یکسر نظر انداز کیا جو پرفارمنس تو تھی مگرشعر نہیں تھا۔

یہاں یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ پھر ایسی شاعری اسٹیجوں تک کیسے پہنچی تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ گروہ بندی اور کھینچا تانی میں یہ سب ہوا، ہر منتظم نے یہ سمجھا کہ سنجیدہ شاعری پر داد تو ملتی نہیں کیوں نہ ایسے لوگوں کو لایا جائے جس سے سامعین کی داد "ہتھیائی"جا سکے، بس اس کے بعد شاعر نے شاعری کی بجائے ڈانس اور پرفارمنس شروع کر دی۔ میں نے ایک مزاحیہ شاعر سے یہ سوال پوچھا کہ آپ تو سنجیدہ شعر کہتے تھے، مزاحیہ کی طرف کیسے آ گئے، وہ کہنے لگے" سنجیدہ مشاعروں میں کوئی بلاتا ہی نہیں، سوچا اس طرف قسمت آزمائوں "۔

ایسے شاعر جو قسمت آزمائی پر چل رہے ہیں، جنھیں شعر اور سامعین کی تربیت سے کوئی غرض نہیں تھا، انھوں نے اسٹیجوں پر قبضہ جما لیا ہے یہ قبضہ ایک ایسے مافیا کی وجہ سے ممکن ہوا جنھوں نے مشاعروں میں شعر کی بے توقیری کی بنیاد رکھی، حیرت اور افسوس ہے ایسے منتظمین اور میزبانوں پر جنھوں نے اپنا قد بڑا کرنے کے لیے بونوں کا سہارا لیا اور اس تگ و دو میں اپنا وقار بھی گنوا بیٹھے۔ منتظمین میں اچھا شعر کہنے والے بھی ہیں مگر وہ بھی اس مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں، انھیں بھی لگتا ہے کہ مشاعرے میں اگر ایک دو شاعر اداکاری یا پرفارمنس نہیں دکھائیں گے تو نوجوان نسل متاثر نہیں ہوگی حالانکہ اب نوجوانوں کو کسی بھی منصوبہ بندی کے تحت اچھے شعروں سے دور نہیں رکھا جاسکتا۔ نوجوان ایسے منتظمین کو مشاعرے کے بعد "سنا "رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا وقت ضائع کر دیا ایسے بدتہذیب لوگوں کو اسٹیج پر بٹھا کر۔

"الائو"کی بنیاد رکھتے ہوئے ہم چار دوستوں (سعود عثمانی، عرفان صادق، شاہد رضا، آغر ندیم سحر)کی خواہش بھی یہی تھی کہ ہم ادبی اسٹیج کا کھویا ہوا وقار بحال کریں گے، ہم مشاعرے کی عظمت رفتہ کو دوبارہ زندہ کریں گے اور ہر ایسے کردار کا بائیکاٹ کریں گے جنھوں نے مشاعروں کی فضا کو آلودہ کیا، ہم ہر ایسے منتظم کا بھی بائیکاٹ کریں گے جو مشاعروں کے ماحول کو بلیک میل کر رہا ہے یا مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہا ہے۔

ہم مشاعرے کی فہرست سازی کسی ایرے غیرے سے پوچھ کر نہیں بنائیں گے بلکہ شعر کی بنیاد پربنائیں گے، ہمارے اسٹیجوں پر وہی لوگ ہوں گے جو شعر سے اور سامع سے مخلص ہوں گے۔ ایسے کرداروں کو اسٹیج کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیں گے جو شعر سے کمٹڈ ہیں نہ مشاعروں سے۔ یہاں وہی لوگ چلیں گے جو اندر اور باہر سے صاف شفاف ہیں، جن کے پاس اچھا شعر تو ہے، اچھی تربیت بھی ہے، زبان و ادب سے محبت بھی ہے اور مشاعروں کے میزبانوں سے کمٹمنٹ بھی۔ "الائو"صرف مشاعروں پر توجہ نہیں دے گی بلکہ اس پلیٹ فارم سے ادبی مذاکرے، ادبی کانفرنسیں، ادبی و سماجی مکالمے اور اچھی شاعری کو فروغ ملے گا۔

یہ پلیٹ فارم ہر اس نوجوان کو خوش آمدید کہے گا جس کے پاس اچھا شعر ہے اور جو مشاعرے کی ادبی فضا کو معطر کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ "الائو"کا پہلا پڑائو اس قدر شاندار اور جاندار رہا ہے کہ مختلف شہروں سے دوستوں نے مشاعرے کروانے کے لیے رابطے شروع کر دیے، یہ انتہائی اچھی خبر ہے اور جلد آپ کو علم ادب کا یہ "الائو"مختلف شہروں میں جلتا ہوا نظر آئے گا، اس کی روشنی سے لوگ روشن بھی ہوں گے جلنے والے جلیں گے بھی، یہ الائو جلتا رہے گا اور اس کی روشنی سے ہمارے ادبی اسٹیجوں کی رونقیں بحال ہوں گی اور وہاں روشنی ہی روشنی پھوٹے گی(انشاء اللہ)۔ "الائو" کی ٹیم کے لیے دعائیں اور نیک تمنائیں۔

بقول قتیل شفائی:

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِعام رکھ دیا