سیلاب نے پنجاب کے بعد سندھ کا رخ کر لیا ہے، یہ جہاں سے بھی گزر رہا ہے، تباہی مچاتا جا رہا ہے، صرف پنجاب میں پچاس ہزار سے زائد خاندان اور لاکھوں افراد سیلاب سے متاثر ہوئے، جانی اور مالی نقصان اس کے علاوہ ہے، درجنوں بستیاں زیر آب ہیں، وہاں انفراسٹکچر بھی تباہ ہوا اور زرعی رقبہ بھی، جن علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچائی، وہاں کا کسان کنگال ہوگیا۔ کسان، جس کا ہمیشہ شکوہ رہا کہ ہم پورے ملک کی خوراک کا بندوبست کرتے ہیں اور حکومتی ادارے ہمیں ہی اون نہیں کرتے، جب بھی کٹ لگانے کی بات ہوتی ہے تو اداروں کو سرکاری اساتذہ اور کسان یاد آتے ہیں، آج بھی صورت حال ایسی ہی ہے۔
سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان تو کسان کا ہوا، نہ گھر رہا اور نہ ہی زرعی رقبہ، فصلیں بھی تباہ ہوگئیں اور جائیداد بھی، ایسے میں متاثرین کے نام پر بیرون ملک اور اداروں سے امداد ہتھیانے والے بھی انھیں یاد نہیں کر رہے، کوئی ان سے نہیں پوچھ رہا کہ آپ کا دکھ کیا ہے، آپ کے نقصان کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔ کسان تو ایک طرف، سیلاب متاثرین میں عوام کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔ ابھی آپ جلال پور پیروالہ میں دیکھ لیں، سیلاب نے وہاں کچھ نہیں چھوڑا، سب ملیامیٹ کر دیا، لوگ امداد کے منتظر ہیں، خوراک اور صاف پانی تک میسر نہیں، دوائیاں تک نایاب ہو چکیں، ایسے میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز دورے پر جاتی ہیں تو سڑکوں پر چونا پھینک کر استقبال کیا جاتا ہے، ایک طرف لوگ مر رہے ہیں اور دوسری جانب بیوروکریسی اس بحث میں مصروف ہے کہ ریڈ کارپٹ کہاں کہاں ڈالنا ہے اور میڈیم چیف منسٹر کو گلدستہ کون پیش کرے گا؟ میں جب وہاں کے دوستوں سے حالات جان رہا تھا، دل خون کے آنسو رو رہا تھا، ایسے میں چند تنظیموں کی جانب سے یہ تسلی رہی ہے "ابھی کچھ لوگ باقی ہیں"جو اللہ والے ہیں اور اللہ کی مخلوق سے محبت کا حق ادا کر رہے ہیں۔
الخدمت فائونڈیشن نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی عوام کو تنہا نہیں چھوڑا، پچاس ہزار کے قریب رضاکار متاثرین کی بحالی اور ان کی خوراک و ادویات کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں، رضاکاروں کی ٹیموں نے 20,000 لوگوں کو بروقت ریسیکیو کیا، 19,722 لوگوں کو خوراک پیکج تقسیم کیے، 30کشتیاں دوران سیلاب متاثرہ علاقوں میں موجود رہیں، 3,864دیگیں بنائی گئیں، موبائل کچن بھی کام کر رہا ہے، موسمی شدت سے بچائو کے لیے شیلٹرز، خیمے، کمبل، ادویات اور صاف پانی کا اہتمام انتہائی بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔ موبائل ہیلتھ یونٹس، ایمبولینسز، واٹر کولرز، موبائل واش رومز کی تعداد بھی درجنوں میں ہے، اب تک 90,000 کے قریب بینیفیشریز کیمپس لگائے جا چکے، میڈیکل کیمپس کی تعداد بھی درجنوں میں ہے۔
الخدمت فائونڈیشن کے فلاحی کاموں کا جال پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے، اس کے ڈونرز اور والینٹیرز بھی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں لہٰذا اس کا کام حیران کر دینے والا ہے، میں نے جب بھی الخدمت کے نیٹ ورک کو دیکھتا ہوں، ایک روحانی سرشاری ملتی ہے، وہ اس لیے کہ اس تنظیم کا دیا ہمارا ایک ایک پیسہ مستحق لوگوں تک پہنچ رہا ہے، یہاں کسی بھی طرح کی کرپشن اور بددیانتی کا عنصر موجود نہیں، اسی لیے میں دوستوں سے ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ جن چند فلاحی تنظیموں پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے، ان میں الخدمت بہت نمایاں ہے۔
المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے ساتھ بھی ایک عرصے سے بطور قلمی سفیر کام کر رہا ہوں، چالیس سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ان کا نیٹ ورک خاصے کا کام کر رہا ہے، اس تنظیم کا بنیادی کام تو آئی ہسپتال ہے مگر انھوں نے آنکھوں کے آپریشنز پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر وہ کام کیا جس سے عوام کا بھلا ہو سکے، دستر خوان لگائے، میڈیکل کیمپس لگائے، لاکھوں افراد کے آنکھوں کے مفت آپریشن کئے، ہزاروں افراد کی عینکوں کا بندوبست کیا، جب بھی کوئی آفت یا وبا آئی، ان کے رضاکاروں نے دن رات ایک کر دیے اور وطن عزیز کو خود سے بڑھ کر سپورٹ کیا، ان کا سہارا بنے، جنھیں وقت آنے پر گھر والے بھی تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔
میں المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے کاموں کا عینی شاہد ہوں بلکہ جب بھی ان کے ہاں مدعو کیا گیا، سر کے بل چل کر گیا، محض اس لیے کہ کوئی تو ایسا ہے جو عوام الناس کا سوچ رہا ہے، فی زمانہ ایسے اداروں اور لوگوں کا قال ہے جو نمود و نمائش اور لالچ سے ہٹ کر فلاحی کاموں کا سوچتے ہیں۔ احساس فائونڈیشن اور سحر ویلفیئر ٹرسٹ کا نیٹ ورک بہت وسیع نہ سہی مگر انھوں نے منڈی بہاء الدین میں سیلاب متاثرین کی بحالی اور ان کی خوراک و ادویات کے لیے جس تن دہی سے کام کیا، وہ حیران کن بھی تھا اور قابل تحسین بھی، چند نوجوان جن کے اندر حب الوطنی اور خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، جب ہیڈ قادر آباد کے مقام پر سیلاب نے ڈیڑھ سو سے زائد گائوں اور ہزاروں لوگ اپنی لپیٹ میں لے لیے، احساس فائونڈیشن اور سحر ویلفیئر ٹرسٹ کے رضاکار آگے بڑھے اور انھوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا۔ احساس کے رضاکاروں نے اپنے نام کا پاس رکھتے ہوئے ہزاروں افراد کے لیے خوراک، ادویات اور پینے کا صاف پانی مہیا کیا، متاثرین کی بحالی کے لیے جتنا بن پڑتا تھا، ان دونوں تنظیموں کے نوجوانوں اور رضاکاروں نے کیا۔ میانوال رانجھا جیسے علمی و مذہبی حوالے سے اپنی جداگانہ شناخت رکھتا ہے۔
فلاحی کاموں میں بھی یہاں کے لوگ ہمیشہ پیش پیش رہے، مجھے فخر ہے کہ میرا تعلق ایک ایسی مٹی سے ہے جہاں علم و حکمت بھی ہے اور خدمت خلق کا جذبہ بھی۔ میں اس کالم کے توسط سے اپنے قارئین سے دست بستہ اپیل کروں گا کہ ان فلاحی تنظیموں کو سپورٹ کریں، جہاں جہاں سیلاب آیا، یہ تنظیمیں پوری ہمت اور لگن سے متاثرین کی بحالی میں مصروف ہیں، آپ آنکھیں بند کرکے ان اداروں پر یقین کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ اور ادارے حقیقت میں"اللہ والے "ہیں کیوں کہ انھیں یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ رب کا ہے اور جو رب کا ہے، وہ سب کا ہے۔