1. ہوم
  2. کالمز
  3. آغر ندیم سحر
  4. گلوبل وارمنگ، ہم کہاں کھڑے ہیں؟

گلوبل وارمنگ، ہم کہاں کھڑے ہیں؟

سیلاب کے بعد بارشیں، ایک پریشانی کے بعد دوسری، ہم کہاں کھڑے ہیں، آخر ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں کہ فطرت ہر سال ہمیں کسی نئی آزمائش میں ڈال دیتی ہے، ہم نے فطرت سے دشمنی کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی، ایسا لگ رہا ہے اب فطرت ہم سے سارے حساب برابر کر رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے اگرچہ پوری دنیا پریشان اور خوف زدہ ہے مگر پاکستان میں صورت حال بالکل مختلف ہے، ہم پریشان تو ہیں مگر خوف زدہ نہیں ہیں، اگر ہم خوف زدہ ہوتے تو موسمیاتی تغیرات اور اس سے خطے پر پڑنے والے بھیانک اثرات کے سدباب کا سوچتے۔

ہم نے ایسا کوئی منصوبہ یا اسٹریٹجی بنائی ہی نہیں جس سے ہم یہ امید رکھ سکیں کہ مستقبل قریب یا بعید میں پاکستان موحولیاتی تبدیلی یا موسمیاتی تغیر سے محفوظ رہے گا، موسموں کا اتار چڑھائو اس درجہ متاثر کر چکا کہ اب یہاں سردی اور گرمی بھی اپنا مزاج بدل چکی۔ ماحولیات کے اتار چڑھائو اور فطرت کے پیدا کردہ توازن میں تبدیلی کا ذمہ دار حضرتِ انسان ہے، جب آپ فطرت کے توازن اور رویے کو ذبردستی تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہی ہوتا ہے جو آج نسلِ آدم کے ساتھ ہو رہا ہے۔

بدلتے موسموں سے صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کو شدید ترین خطرہ ہے، دنیا نے اس خطرے کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا، اگر کسی نے نہیں سمجھا تو وہ پاکستان ہے۔ آج جب پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے نت نئی تحقیق اور معاہدوں کی تشکیل میں مصروف ہے، ہماری سرکار اور" جمہوری ادارے"آپس کی جنگ و جدل میں مصروف ہیں۔ آج جب پوری دنیا اپنی تعلیم و تحقیق پر توجہ دے رہی ہے، ہم اور ہمارے ادارے حکومتیں گرانے اور بنانے میں مصروف ہیں۔

اسی اور نوے کی دہائیاں ماحولیات کے حوالے سے انسان کے لیے انکشافات کی دہائیاں تھیں، اسی کے وسط میں یہ انکشاف ہوا کہ اوزون کی حفاظتی ڈھال ٹوٹ رہی ہے، اسی کی دہائی کے اواخر میں موسموں میں تغیر یا تبدیلی کے موہوم اشارے واضح ہو کر سامنے آئے۔ جدید تحقیق کے مطابق موسموں میں بگاڑ کی اہم وجہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہے، آب و ہوا اور موسم کے موضوع پرتحقیق کرنے والے ہزاروں سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت انسان نے اندھا دھند سائنسی ترقی میں سب کچھ دھندلا کر دیا ہے، صنعتوں کے غیر محتاط پھیلائو، آبادی میں اضافے، شہروں کی جانب تیزی سے بڑھتی ہوئی نقل مکانی، ٹرانسپورٹ میں بے تحاشا اضافہ، جنگلات اور پہاڑوں کا کٹائو اور جنگلی زمین کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کرنا، یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، پاکستان میں لینڈ مافیا اور ٹمبر مافیا کو لائسنس جاری کرنے والے ادارے اور لوگ بھی زمینی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔

2010ء کی ایک رپورٹ کے مطابق زمین گزشتہ صدی سے 0.3 اور 0.6درجہ کیلسس تک گرم ہو چکی ہے، 2010ء میں ہی سائنس دانوں نے تخمینہ لگایا تھا کہ 2020ء تک یہ دنیا آج کے مقابلے میں اوسطاً 1.3درجہ کیلسس تک گرم ہو چکی ہوگی، یہ تین درجوں کا اضافہ دنیا کو اس سے بھی زیادہ گرم بنا دے گا، جتنی وہ بیس لاکھ سال پہلے تھی۔ آج 2025ء ہے، آپ اس تخمینے کو مدنظر رکھتے ہوئے خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دنیا اس وقت کتنے بڑے بحران سے گزر رہی ہے، ہمیں موسمیاتی تغیرات کو سمجھنے اور اس کے بچائو کے لیے کتنی محنت درکار ہے۔

درجہ حرارت میں اضافہ یا گلوبل وارمنگ، ہمارے سیاروں کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے، اس سے قطبین کے خطوں میں مستقل برف پوش چوٹیوں سے برف پگھلنا شروع ہو جائے گی جس سے بحر الکاہل کے تین سو جزیرے سیلاب کی زد میں آ جائیں گے اور ان کے غائب ہونے کا بھی خدشہ ہے، ایک تحقیق کے مطابق 2050ء تک بنگلہ دیش کا اٹھارہ فیصد حصہ زیر آب آ جائے گا۔ گلوبل وارمنگ سے بارشوں میں بڑی تبدیلی آتی ہے اور یہ عمل عالمی سطح پر خوراک کی فراہمی کے نظام کو بنیادی طور پر درہم برہم کر دے گا۔ 2010ء کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت اور پاکستان میں 2050ء تک فصلوں کی مقدار تیس فیصد تک گھٹ جائے گی، حالیہ رپورٹ میں یہ بات محسوس کی گئی کہ ہماری فصلیں پہلے سے بہت کم ہو چکی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائنسی رپورٹس جو کہتی تھیں، وہ سچ ہونا شروع ہو چکا۔

سیلاب یا بارشیں، ان کے پانی کو سٹوریج کرنے اور گلوبل وارمنگ سے بچنے کے لیے دنیا بھر کے سائنس دان سر جوڑ کر بیٹھے ہیں، وہ فطرت کے توازن کو برقرار رکھنے اور فطرت سے اپنا تعلق بحال کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، جن ممالک میں سیلاب زیادہ تباہی مچاتا تھا، انھوں نے ڈیمز کے ذریعے اس پانی کو محفوظ کیا اور اس سے نئے تجربات کیے، صد حیف! پاکستان نے اس ساری صورت حال اور وارننگ سے نہ سبق حاصل کیا اور نہ ہی ہر سال آنے والی تباہی سے عبرت۔

اس وقت چین کے پاس چھوٹے بڑے پچاس ہزار سے زائد ڈیمز ہیں، انڈیا کے پاس چھ ہزار، جاپان کے پاس تین ہزار اور پاکستان کے پاس صرف ڈیڑھ سو، بارہ یا پندرہ زیرتعمیر ہیں۔ اس تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، اس کے بعد بھی بارشیں یہاں تباہی نہ مچائیں تو کیا کریں، ہم نے اگر یہی پانی سٹور کیا ہوتا تو بجلی بھی بناتے اور ہماری فصلیں بھی زرخیز ہوتیں مگر حیف صد حیف! ہماری حکومتوں، اداروں اور سیاست دانوں کی ترجیحات ہی مختلف ہیں، ہم کوئی انوکھی قوم ہیں جسے دنیا میں آنے والی بڑی تبدیلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم اپنی انائوں میں گھرے ملک کا ستیا ناس کر رہے ہیں، ہم نے گلوبل وارمنگ سے بھی کچھ نہیں سیکھا اور نہ ہی موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی آلودگی سے کچھ سیکھیں گے، ہم اب بھی فطرت کا مذاق بنائیں گے اور فطرت کے توازن کو بگاڑتے رہیں گے، ہم اب بھی نہ ڈیمز بنائیں گے اور نہ ہی پانی سٹور کریں گے، ہم ہر سال اپنے لاکھوں لوگ، ہزاروں جانور اور اربوں کی زمینیں اور سامان پانی کی نذر کر دیں گے، مگر ہم سبق نہیں سیکھیں گے۔