1. ہوم
  2. افسانہ
  3. سید محمد زاہد
  4. بھوری مٹیالی آنکھیں

بھوری مٹیالی آنکھیں

شبانہ تیوری پر بل ڈالے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ بھوری آنکھیں خوف کو اجاگر کر رہی تھیں۔

"ذرا مسکراؤ! "

فوٹوگرافر نے مسکرانے کی اداکاری کرتے ہوئے اسے سمجھایا۔

بولو، "چیز"۔

وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔

کسی کو پرواہ نہیں تھی، ایک بچی کو انجان آدمی کے سامنے بٹھا کر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ مسکرا کر بھی دکھائے۔ تیوری چڑھانا اس ظلم کے خلاف احتجاج تھا۔ زندگی کے پہلے دروازے پر کھڑی سات سال کی بچی، دکھ دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے بھی عاری بچی، جس کے گلے میں کالے دھاگے سے تعویز بندھا ہوا تھا درد کی خاموش لرزش نے اسے گنگ کر دیا تھا۔

فوٹوگرافر کی بھی مجبوری تھی سو ویسے ہی تصویر بنا لی۔

آنکھوں کی قدرتی رنگت بھوری نہیں تھی۔ اس کی آنکھیں کتھئی تھیں، چاکلیٹ جیسی۔ گدلا پن ان پر چھائی ہوئی افسردگی کا مظہر تھا۔ دکھ اور خوف ان میں جھلکتا تھا۔ رنگت ایسی جیسے چوٹ کے بعد جلد پر دھبے پڑ گئے ہوں۔ دھواں سی آنکھیں، ادھ کھلی سوئی سوئی گدلی آنکھیں، جن میں ہمیشہ کے جگراتے سے خون جم گیا ہو یا آکسیجن کی کمی کا دھندلا پن ہو۔ درد بھرے زرد چہرے پر کُھلی تازہ ہوا کو ترستی ہوئی مٹیالی آنکھیں۔

وہ پیدائشی دمہ کی مریض تھی۔ جو بڑھتی عمر کے ساتھ کچھ کم ہوگیا لیکن بدلتے موسم کے ساتھ اپنا رنگ بدلتا رہتا۔ دمہ اسے باپ کی طرف سے ملا تھا۔ کمزور باپ جس کو سانس لینے سے اتنی ہی آکسیجن ملتی جتنی جینے کے لیے ضروری تھی۔ سوکھے پنجر سینے پر دھونکنی کا گماں ہوتا تھا۔ وہ دوڑتا، نہ کھیل سکتا اس لیے دوسرے مردوں کی نسبت کمزور تھا۔ سارا زور پڑھائی پر دیا اور ایک اچھی جاب مل گئی۔ رات دیر گئے تک کام کرتا۔

تھکا ہارا گھر آتا تو خواہش ہوتی کہ سو جائے۔ وہ ایک ایسا آدمی تھا جس نے جینا سیکھا ہی نہیں، دل کی شفقت و محبت کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ باپ اپنے بچوں کے تئیں دلار و محبت کا اظہار کرنا جانتا ہی نہیں تھا۔ شاید بچے اسے برے لگتے ہوں۔ اپنی کمزور شخصیت کے باعث ڈانٹتا تو نہیں لیکن شور و غل سے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر سب بچے دبک کر لیٹ جاتے۔ شبانہ باپ کو دیکھ کر ہی چارپائی کے نیچے گھس جاتی۔ بیڈ کے نیچے لیٹی چھوٹی معصوم بچی جس کا جسم ابھی کچا ہوتا ہے جدھر چاہے موڑ لو، دبا لو گوندھی ہوئی مٹی کے تودے جیسا جس پر کمہار کی انگلیوں کے نشانات بھی موجود ہوتے ہیں۔

سانس کی بیماری، ڈر کے مارے اکھڑے اکھڑے سانس لینا، منہ کو تکیہ یا لحاف میں چھپا لینا، سانس کو روک لینا کہ باپ کو ذرا بھی ہل جل کا احساس نہ ہو اسے پتا نہ چلے کہ بچی کہاں چھپ گئی ہے اور خوف جو دل کی دھڑکن کو بھی روک دیتا ہے، جسم کو خون اور آکسیجن پوری نہیں پہنچتی۔

خوف اسے تھپیڑے لگاتا تو نیند کی گود میں منہ چھپا لیتی۔

آنکھوں کی بھوری رنگت اسے ننھیال سے ملی تھی۔ ماں کی، نانی کی، سب کی آنکھیں اسی رنگ کی تھیں۔ نسل در نسل ایک جیسی آنکھیں۔

فوٹوگرافر نے تصویر بنا لی لیکن اس سے مطمئن نہیں تھا۔ اس نے جب یہ کام سیکھنا شروع کیا تو قدرتی نظاروں کو فلماتا، درختوں پھولوں کی تصویریں بناتا، مست ہاتھیوں کی طرح دوڑتے کالے بادل بھی بھلے لگتے اور انہیں اپنے کیمرے میں قید کر لیتا۔ پھر اسے ماڈلز کی تصویریں بنانے کا موقع ملا۔ خوبصورت اور حسین و جوان لڑکیاں لڑکے لیکن ان میں بناوٹ بہت تھی۔ سکول میں نوکری ملی تو وہ پھر قدرتی خوبصورتی کی طرف لوٹ آیا۔ پیارے پیارے بچے سورج کی روشنی جیسی چمک والے چہرے، بادلوں جیسی زلفیں، گلاب جیسے ہونٹ اور کنول جیسی آنکھیں۔

لیکن اس لڑکی کی مٹیالی آنکھیں اسے رلا گئی تھیں۔

وہ کمپیوٹر پر بیٹھا بچوں کی تصاویر پر کام کر رہا تھا۔ یہ تصویریں والدین بھی مانگ لیتے اور سالہا سال کے بعد جب بچے اچھی پوسٹوں پر پہنچ جاتے تو اس تصویر کی اہمیت بڑھ جاتی۔

فوٹوگرافر کے سامنے اس لڑکی کی تصویر تھی۔ مسکراہٹ کہاں سے لائے، سات سالہ بچی کے چہرے پر پھیلا خوف کیسے ختم کرے؟ بچی کی آنکھیں یوں تھیں جیسے ابھی چھلک پڑیں گی گھنے بالوں کے درمیان مرجھائے چہرے کے گڑھے میں آنسوؤں کی دو جھیلیں۔

***

ماں تیس منٹ دیر سے سکول پہنچی۔ بھاگتی ہوئی گیٹ پر آئی تو چوکیدار نے میڈم سے ملنے کا کہا۔ دیر سے آنے کی سزا تھی کہ بچی کو دفتر سے لینا پڑے گا۔

ماں کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ میڈم کا سامنا نہ ہو۔

میڈم نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا۔ وہ ایک خوبصورت پرکشش خاتون تھی۔ مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر کر فخر محسوس کرتی۔ گزشتہ تین ماہ میں ہونی والی ملاقاتوں میں میڈم کی نرم دلی، مہربانی اور گرم جوشی کی وجہ سے اس کی ہچکچاہٹ کچھ کم ہوگئی تھی۔

"ہم جانتے ہیں کہ اس وقت سڑکوں پر ٹریفک کا اژدہام ہوتا ہے لیکن پھر بھی رسماً آپ کو بلانا پڑا۔ سکول کا قانون ہے کہ جو والدین بچوں کو دیر سے لیں انہیں وارننگ جاری کی جائے"۔ یہ کہتے ہوئے میڈم نے ایک پیلے رنگ کا کارڈ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔

ماں کو لگا کہ میڈم کی اس بات میں طنز بھی شامل ہے۔

وہ ایک ہاتھ میں پیلا کارڈ اور دوسرے میں بچی کو پکڑے باہر آئی تو یوں محسوس ہوا کہ ارد گرد کھڑا سٹاف اور ٹیچرز اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ کارڈ کو دہرا کرکے اپنے پرس میں ڈال لیا لیکن پھر بھی ان کی نگاہیں کہہ رہی تھیں، "کیا آپ کو اپنے بچے کی پرواہ نہیں؟

کیا آپ اپنے حالات میں اتنے مست رہتے ہیں؟ آپ نہیں جانتے کہ بچے کو بھول جانا اس کے لیے کتنا تکلیف دہ ہوگا؟ انتظار اس کے ذہن پر کیسا برا اثر ڈالے گا؟ اس کو ذہنی مریض بھی بنا سکتا ہے"۔

ایمانداری کی بات تو یہ تھی کہ وہ اپنی بچی کو بھول گئی تھی۔ گھر کے کام کاج میں مصروف ہو کر اسے یاد ہی نہیں رہا۔ صرف پانچ منٹ رہتے تھے جب اسے یاد آیا۔ کپڑے بھی نہیں بدلے اور انہی سلیپرز اور پاجامے میں بھاگتی ہوئی رکشہ لے کر سکول پہنچ گئی۔

شرمندگی کو چھپانے کے لیے راستے میں بچی کو ایک آئس کریم پارلر میں لے گئی۔ آئس کریم کھاتے ہوئے شبانہ نے بتایا کہ آج ایک آدمی نے اس کی تصویر بنائی ہے۔ "میں جانتی ہوں، سکول کی طرف سے پیغام آیا تھا۔ میں تمہیں بتانا بھول گئی اسی لیے تمہیں آج کلر ڈریس میں بھیجا تھا"۔

اس رات شبانہ کا والد دفتر میں دیر تک کام کرتا رہا۔ شبانہ اور اس کی ماں نے لیپ ٹاپ پر لٹل بیر کی کچھ قسطیں دیکھیں۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ بچی کو کارٹون دکھائیں تو اس کا دھیان بٹ جاتا ہے اور سانس خراب نہیں ہوتا۔ ماں نے اس کو سونے سے پہلے نیبولائز بھی کر دیا۔ منہ صاف کروایا اور سنڈریلا کا نائٹ گاؤن پہنا کر بستر پر لٹا دیا۔

پاس بیٹھ کر لوری سنانے لگی۔ جب وہ سو گئی تو گڈ نائٹ کہہ کر اسے بوسہ دیا اور کچن میں کام کرنے کے لیے چل پڑی۔

آدھی رات ڈھل چکی تھی، باپ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ کچن سے واپس آتے ہوئے بیٹی کے کمرے کا دروازہ کھول کر دیکھا، وہ سو رہی تھی۔ ماں بھی اپنے کمرے میں پہنچ گئی۔

تھکی ماندی پیٹھ کے بل سیدھی لیٹ کر چھت پر لگے جالے کو دیکھ رہی تھی۔ جالے جو بند کمروں میں، ویران گھروں میں، دیواروں پر مکڑیاں بن دیتی ہیں۔ وہ کمرے جن کی صفائی میں لاپرواہی برتی گئی ہو، وہ گھر جن کے مالک انہیں بھول جاتے ہیں۔ کیا وہ بھی ایک جالا تھی اور اس کی بیٹی بھی، جنہیں زمانے کے ساتھ ساتھ اپنے بھی بھول گئے تھے ان فراموش کردہ نامعلوم لاکھوں کروڑوں عورتوں کی طرح جن کی اس دنیا میں کوئی پہچان نہیں۔

***

وہ شاید ہاسپٹل کا کمرہ تھا یا کوئی اور جگہ، دروازہ بند تھا۔ دروازے کے اُس پار سے کچھ آوازیں آ رہی تھیں۔ چابی کے سوراخ سے جھانکا۔ چھت پر ایک ٹھنڈے نیلے رنگ کا بلب روشن تھا جیسے ہسپتال کی لائٹ ہو۔ جو آوازیں وہ سن رہی تھی، جو بھنبھناہٹ اس کی کانوں میں انڈیلی جا رہی تھی، وہ عجیب سی تھی۔ ایک آدمی نے کیمرہ نکالا اور تصویریں بنانی شروع کر دیں۔ بار بار کی فلیش سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں لیکن اس نے پہچان لیا کہ ٹیبل پر پڑا ہوا جسم شبانہ کا تھا۔ دو آدمی اس پر جھکے ہوئے تھے۔ ایک مرد جس کے ہاتھ پر دستانے تھے اس کے پیٹ کے اندر ہاتھ ڈال رہا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر شبانہ کو چھونا چاہا۔ شبانہ کا جسم بالکل ٹھنڈا تھا۔ وہ جوان بچی تھی۔ وہ مرد اندر سے مختلف اعضا نکال کر باہر رکھتا جا رہا تھا۔

پھر اس نے شبانہ کو دوبارہ چھوا تو اس کا جسم گرم تھا۔ اس نے شبانہ کا ہاتھ دیکھا، کندھا دیکھا، اس کے سر کو دیکھا۔ لڑکی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ مرد غائب ہو گئے۔

ماں کی چیخ پورے کمرے میں گونج اٹھی۔

وہ بھاگ کر بچی کے کمرے کے پہنچ گئی۔ شبانہ جاگ چکی تھی۔

"ماما کیا آپ نے کوئی برا خواب دیکھا ہے"۔ شبانہ نے پوچھا۔ اُس کی آواز نیند سے بھری ہوئی تھی۔

اس نے ماما کے سر کو پیار سے سہلانا شروع کیا۔

"ماما کیا میرے ساتھ لیٹنا پسند کریں گی؟" شبانہ نے یہ کہہ کر ماں کے منہ پر پیار بھرا چھوٹا سا ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ اتنا پیارا ہاتھ، اتنا نرم ہاتھ اور اس کے نرم منہ پر جیسے کوئی بچہ اپنی پالتو بلی یا کبوتر کے اوپر ہاتھ پھیر رہا ہو۔ ماں اس کے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ مٹیالی آنکھیں چھم چھم برس رہی تھیں۔ نسل در نسل کی بھوری آنکھوں کا گدلا پن مزید گہرا ہوگیا تھا۔ ماں رخساروں پر آنسوؤں کی واضح لکیروں کے ساتھ بیڈ کے سرہانے کے ساتھ ٹکی شبانہ کو دیکھتے ہوئے سسک رہی تھی۔

"ماما آپ میرے ساتھ آ جائیں"۔ یہ کہہ کر شبانہ نے اپنا لحاف اٹھایا اور ماں کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے لیا۔

ماں نے بچی کو گود میں لیا اور بولی، "ہاں تھوڑی دیر کے لیے میں تمہارے ساتھ ہی لیٹوں گی جب تک تمہارے بابا گھر نہیں آ جاتے"۔

درد کی ناپید کنار وادی میں اٹھتی اس کی آواز صدا بصحرا بن کر کہیں کھو جاتی ہے۔ وہ مٹیالی گدلی آنکھوں کو بند کرکے، گمنام گہری جھیل کی طرف پھینکی گئی ٹھیکری کی طرح، سطح آب پر تتو تاریاں لے کر لحاف میں ڈوب جاتی ہے۔