1. ہوم
  2. کالمز
  3. رحمت عزیز خان
  4. عذرا ناز

عذرا ناز

عذرا ناز کہتی ہیں

مرے حضور ﷺ سا عالی مقام کوئی نہیں
حسین نامِ محمد ﷺ سا نام کوئی نہیں

درود و سلام نہ پڑھنے والوں کو مخاطب کرکے کہتی ہیں

وہ شخص آپ کی اُمت کی صف سے دُور ہوا
کہ جس کے لب پہ درود و سلام کوئی نہیں

نعتیہ شاعری اردو ادب کا ایک مقدس اور منفرد صنفِ سخن ہے، جو عقیدت و محبت کی معراج پر فائز ہوتی ہے۔ نعت صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک روحانی کیفیت کا اظہار بھی ہے، جس میں شاعر اپنی عقیدت کو شعری قالب میں ڈھالتا ہے۔ عذرا ناز کی نعت کا یہ مصرع "مرے حضور سا عالی مقام کوئی نہیں" ایک ایسی تخلیق ہے جس میں شاعرہ نے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بے مثال عظمت، آپ ﷺ کی رحمت و جمال اور آپ ﷺ کے دین کی برتری کو بیان کیا ہے۔

ان کی نعت میں عقیدت و محبت کا اظہار جابجا ملتا ہے۔

عذرا نے اپنی اس یہ نعت شریف میں عشقِ رسول ﷺ کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ پہلے ہی شعر میں شاعرہ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے مقامِ عالیہ کو یکتا و بےمثال قرار دیا ہے۔

ان کے یہ اشعار نہ صرف نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس میں "عالی مقام" اور "حسین نام" جیسے الفاظ محبت و تعظیم کی شدت کو نمایاں کرتے ہیں۔

نعت رسول مقبول ﷺ میں درود و سلام کی برکت کو موضوع بنایا گیا ہے۔

عذرا ناز نے نعت میں درود و سلام کی برکت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

عذرا کے اشعار درود شریف کی روحانی افادیت کو واضح کرتے ہیں کہ جو شخص نبی کریم ﷺ پر درود نہیں بھیجتا، وہ امت کی برکتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔

حضور ﷺ کا حسن و جمال

اپنی مثال آپ ہے۔ نبی کریم ﷺ کی ظاہری و باطنی خوبصورتی ہمیشہ شعرا کے لیے موضوعِ سخن رہی ہے۔ شاعرہ چاند کے حسن کو تسلیم کرتے ہوئے بھی نبی کریم حضرت محمد ﷺ کو سب سے زیادہ حسین قرار دیتی ہیں مثلاً:

فلک کا چاند بھی مانا بہت حسین سہی
مرے حضور سا ماہِ تمام کوئی نہیں

عذرا ناز کا یہ شعر نعتیہ شاعری کی روایتی تشبیہات کا بہترین نمونہ ہے، جس میں حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے نورانی حسن کا ذکر کیا گیا ہے۔

دنیا میں بے شمار پیغمبر آئے لیکن نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی فضیلت و برتری کو شاعرہ نے یوں بیان کیا ہے:

جہاں میں آئے پیمبر تو بے شمار مگر
سوائے آپ کے خیرالانام کوئی نہیں

یہ شعر حضور اکرم ﷺ کی شانِ ختم نبوت اور آپ ﷺ کے افضل البشر ہونے کی دلیل ہے جسے شاعرہ نے بڑے سادہ اور مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔

نعتیہ شاعری میں صحابہ کرامؓ کی عقیدت بھی ایک لازمی عنصر ہوتی ہے۔ حضرت بلالؓ کی اذان اور غلامی کو شاعرہ یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے:

فقط انہی کی اذاں کی ہی منتظر تھی سحر
بلال جیسا جہاں میں غلام کوئی نہیں

عذرا ناز کا یہ شعر نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے غلاموں کی عظمت اور ان کی لازوال عقیدت کو بیان کرتا ہے۔

مدینے کی زیارت ہر عاشقِ رسول ﷺ کی خواہش ہوتی ہے۔ شاعرہ کا دل بھی مدینے جانے کے لیے مچلتا رہتا ہے جیسے:

مدینے جانے کو ہر بار چاہے جی یہ مرا
کہ زندگی کو ہی حاصل دوام کوئی نہیں

یہ شعر روحانی کیفیت کی ترجمانی کر رہا ہے اور مدینہ منورہ کی زیارت کے شوق کو اجاگر کر رہا ہے۔

شاعرہ نے دینِ محمدی ﷺ کی برتری کا بھی ذکر کیا ہے۔ اسلام کا نظامِ حیات دیگر تمام نظاموں سے بہتر ہے جسے شاعرہ نے یوں بیان کیا ہے:

نظام ویسے تو رائج ہوئے جہاں میں بہت
نبی کے دین سے بہتر نظام کوئی نہیں

اس شعر میں شاعرہ نے اسلامی تعلیمات کی برتری اور جامعیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے جو دنیا کے ہر نظام سے برتر ہے۔

ان کی شاعری میں محرومی کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ مدینے کی زیارت سے محرومی کو شاعرہ نے ایک دردمندانہ انداز میں بیان کیا ہے مثلاً:

میں عمر بھر کو مدینے میں جا کے رہ نہ سکی
جہاں میں مجھ سا بے نَیلِ مِرام کوئی نہیں

یہاں "بے نیلِ مرام" کی ترکیب شاعرہ کی گہرے جذباتی لگاؤ اور محرومی کو شدت سے عیاں کر رہی ہے۔

آخری اشعار میں شاعرہ اپنے لیے نعت گوئی کو ایک اعزاز سمجھتی ہیں:

ملا ہے مجھ کو انہی کی ثنا کا دیکھو شرف
کہ جن کی شان میں عذرا کلام کوئی نہیں

یہ شعر وزن اور بحر کے حساب سے درست ہے لیکن حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے لیے"انہی" اور "جن کے" کی جگہ کوئی تعظیم والا لفظ آنا چاہئے تھا۔ بعض نعت گو شاعر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے لیے "تو"، "تم، "تمہی"، "ان"، "اس"، "تجھے" اور دیگر الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جو کہ حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے شایان شان نہیں۔

اوپر والا شعر شاعرہ کی خوش نصیبی اور نعت گوئی کو ایک سعادت سمجھنے کا اظہار ہے۔

ان کی نعوت میں سلاست و روانی دونوں موجود ہیں۔ نعت کے تمام اشعار سادہ، آسان اور رواں زبان میں کہے گئے ہیں۔

نعت رسول مقبول ﷺ میں روایتی تشبیہات بھی شامل ہیں جیسے چاند، بلالؓ، مدینہ، درود و سلام جیسے روایتی نعتیہ عناصر شامل کیے گئے ہیں۔

ان کے نعوت میں احساسات کی شدت بھی موجود ہے۔ نعتیہ اشعار میں گہرے جذبات اور عقیدت کی جھلک نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔

نعت کا ردیف و قافیہ سادہ مگر مؤثر ہے، جیسے "کوئی نہیں" کی تکرار جو نبی کریم ﷺ کی بحیثیت نبی آخر زمان یکتائی کو ظاہر کرتی ہے۔

عذرا ناز کی یہ نعت عقیدت و محبت میں ڈوبی ہوئی ایک خوبصورت تخلیق ہے۔ اس میں حضور اکرم ﷺ کی شان، آپ ﷺ کے حسن و جمال، آپ ﷺ کے دین کی برتری، درود و سلام کی فضیلت اور مدینے کی محبت کو نہایت سادہ مگر موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ نعت جدید اسلوب اور روایتی نعتیہ عناصر کا خوبصورت امتزاج ہے، جو قاری کے دل میں نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے محبت و عقیدت کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ میں شاعرہ کو اتنی اچھی نعت رسول مقبول ﷺ تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔