1. ہوم
  2. کالمز
  3. رحمت عزیز خان
  4. بابا سیار

بابا سیار

بابا سیار، بابا سیئر جن کا اصل نام مرزا محمد سیار تھا، لیکن چترال میں وہ مہسیار کے نام سے مشہور تھے۔ اٹھارویں صدی کے اختتام اور انیسویں صدی کے آغاز میں چترال کے قصبے شوگرام میں پیدا ہوئے۔ وہ چترال کے اُن علمی و فکری شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے نہ صرف کھوار بلکہ فارسی زبان و ادب میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ وہ چترال کے شاہی دربار سے وابستہ رہے اور ایک مؤرخ، موسیقار، صوفی اور شاعر کے طور پر ان کی پہچان بنی۔ ان کے علمی سفر اور ادبی جہات نے چترال کی ثقافتی، تاریخی اور روحانی زندگی میں نئی روح پھونکی۔

انڈیپنڈنٹ اردو کے صحافی سید اولادالدین شاہ لکھتے ہیں کہ "ایک دفعہ بابا سیئر پل پار کرکے ریشن کی طرف جا رہے تھے کہ انہیں رسوں سے بنے طول پل کی دوسری طرف سے وہ لڑکی اس طرف آتی دکھائی دی۔ اب بابا سیئر ایک زبردست الجھن میں گرفتار ہو گئے۔ اگر وہ آگے بڑھتے ہیں تو تنگ پل کی وجہ سے اپنی محبوبہ کو چھو کر گزرنا پڑے گا، اگر واپس پلٹتے ہیں تو اس کی طرف پشت کرنا پڑے گی جو اس کی توہین ہے۔ یہ الجھن ایسی تھی کہ بابا سیئر کے پاس اس کا کوئی حل موجود نہیں تھا۔ آخر انہوں نے جو فیصلہ کیا وہ آج بھی چترال کی لوک روایات کا حصہ بن گیا ہے۔ انہوں نے دور نیچے بپھرے ہوئے دریائے چترال میں چھلانگ لگا دی تاکہ دونوں مشکلوں سے بچ جائیں"۔

بابا سیار کھوار ادب قدیم شاعر گزرے ہیں۔ ان کا "دیوانِ سیار" فارسی شاعری کا نادر نمونہ ہے جبکہ ان کی کھوار شاعری میں حسنِ بیان، صوفیانہ رومانویت، عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کی آمیزش جابجا ملتی ہے۔ ان کا سب سے مشہور گیت "یارمان ہمین" کھوار شاعری اور موسیقی کا کلاسیکی نمونہ ہے جس میں عشق کی دو جہتوں کو فنی، جمالیاتی اور علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بابا سیار کہتے ہیں کہ

ڈق اژی غم نو ژانیم دوستو غَشو غم جشومان یارئے
مہ کریم تت بیکو ساری دریاہو دی جم جشومان یارئے

ترجمہ: مجھے پیدائش کے بعد غم کا تو نہیں پتہ، اگر کوئی میرے محبوب سے گستاخی کرے میں اس کو غم سمجھتا ہوں۔ میری پشت آپ کی طرف ہو، اس سے دریا میں چھلانگ لگانا بہتر سمجھتا ہوں۔

بابا سیار کی شاعری میں جو اہم عنصر نمایاں طور پر دکھائی دے رہا ہے وہ ان کی علامت نگاری، استعارہ بندی اور تمثیلی اندازِ بیان ہے۔ ان کے اشعار میں "گلابی ہونٹ"، "چمکتے دانت"، "پہاڑی راستے"، "دریاؤں کی روانی" جیسی علامات ایک طرف محبت کی مادی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں تو دوسری طرف روحانی مفہوم کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کا اسلوب نہایت فطری، رواں اور موسیقیت سے بھرپور ہے۔

سید اولاد الدین شاہ رقمطراز ہیں "خوش قسمتی سے بابا صاحب کو تیرنا آتا تھا، اس لیے دوسری طرف نکل گئے، لیکن سردیوں کے موسم میں یقیناً یہ جست ہمت کی بات ہے۔ ماہر تعلیم اور چترالی زبان کے ادیب شیر ولی خان اسیر صاحب کہتے ہیں کہ یہ ایک سچا واقعہ ہے۔ بابا سیئر کی جو محبوبہ تھی وہ ان کی قریبی رشتہ دار تھیں اور یہ جو واقعہ لوگوں نے اسے دیکھا بھی تھا"۔

بابا سیار کی شاعری میں عشق کا تصور نہایت گہرائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ "یارمان ہمین" میں محبوب کا حسن، عاشق کی کیفیت، جدائی کی اذیت اور وصال کی امید سب ایک صوفیانہ تجلی میں ڈھلتے نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار صرف محبوب کی تعریف ہی نہیں بلکہ اس کے حسن کو خدائی قدرت کے شہکار طورپر بھی دیکھتے ہیں۔

وہ چترال کی فطرتی خوبصورتی کو اپنے شعری کینوس پر یوں ابھارتے ہیں کہ وہ مناظر محض پس منظر ہی نہیں بلکہ معانی کے حامل استعارے بھی بن جاتے ہیں۔ پہاڑ، دریا، خزاں، بہار سب عشق، ہجر اور وصال کے استعارے ہیں جو ان کی شاعری کو گہرائی عطا کرتے ہیں۔

ان کے ہاں شاعری اور موسیقی کا گہرا رشتہ نظر آتا ہے۔ ان کی تخلیقات کھوار موسیقی میں آج بھی نہایت مقبول ہیں۔ "یارمان ہمین" کھوار لوک موسیقی کا شاہکار ہے جو ان کے شاعرانہ فہم اور موسیقانہ شعور کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے کلام میں موسیقیت، روانی اور ردھم کی خاص کیفیت موجود ہے۔

ان کی سب سے اہم فارسی نثرنگاری شاہنامہ چترال ہے، جو کہ چترال کی تاریخ، ہیرو ازم، ثقافتی ترقی اور سماجی واقعات پر مبنی ایک عظیم رزمیہ ہے۔ اس میں نہ صرف فارسی کلاسیکی شاعری کی روایت نظر آتی ہے بلکہ مقامی داستان گوئی کا انداز بھی شامل ہے۔ یہ ایک ثقافتی اور تاریخی دستاویز ہے جو اس عہد کے چترالی معاشرے کو سمجھنے کے لیے قیمتی ماخذ ہے۔

بابا سیار نہ صرف فارسی و کھوار شاعر بلکہ ثقافت نگار بھی تھے۔ انہوں نے چترال کے رسم و رواج، موسیقی، لوک قصے، مذہبی تقریبات اور معاشرتی اقدار کو اپنی تحریروں میں محفوظ کیا۔ ان کی نثر اور نظم میں چترالی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر نظر آتی ہے۔

ان کی شاعری پر تنقیدی نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ایک جامع شاعر تھے جنہوں نے کلاسیکی فارسی روایات کو مقامی کھوار روایت سے مربوط کیا۔ ان کی شاعری میں نہ صرف جمالیاتی، صوفیانہ اور فکری عناصر موجود ہیں بلکہ اس میں ایک ایسی تہذیبی خود آگہی بھی نظر آتی ہے جو چترالی شناخت کا اظہاریہ ہے۔ ان کی تخلیقات ایک ایسا تہذیبی اور فکری پل ہیں جو پرانے زمانے کو نئے زمانے سے جوڑتے ہیں۔

بابا سیار کی شخصیت اور ان کا ادبی، ثقافتی اور موسیقائی ورثہ چترال کے ادبی اور تاریخی منظرنامے کا نہایت اہم باب ہے۔ ان کی شاعری اور نثر دونوں نے چترال کی تہذیب، تاریخ اور روحانیت کو ایک زندہ جاوید شکل عطا کی ہے۔ آج کے دور میں جہاں ثقافتی شناختیں معدوم ہو رہی ہیں، بابا سیار کا کام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ شاعری محض لفظوں کا کھیل نہیں بلکہ تاریخ، تہذیب اور روح کا اظہار بھی ہے۔