پہلا دن: پہلی صبح
آج صبح بھی میری آنکھ وقت سے پہلے کھل گئی تھی۔ آنکھ کھلتے ہی میں نے محسوس کیا جیسے نیند میرے وجود سے نکل چکی ہو۔ رات کو میں جان بوجھ کر دیر سے سوتا ہوں – یہ کوئی عادت نہیں، بلکہ ایک قسم کی خودکشی ہے۔ بستر پر لیٹتے ہی میرے ذہن میں وہ تمام غیر ضروری لمحات گھومنے لگتے ہیں جو دن بھر میں نے جھیلے ہوتے ہیں۔ میں انہیں دہرانے کی کوشش کرتا ہوں، انہیں ٹھیک کرنے کی، مگر یہ ایک ایسا شیطانی چکر ہے جس سے نکلنا ممکن نہیں۔
میرے کمرے میں گھڑی نہیں۔ فون سائیڈ ٹیبل پر اوندھا پڑا ہے۔ میں نے اسے سائلنٹ کر رکھا ہے، کیونکہ ہر نوٹیفکیشن کی آواز میرے اندر موجود کسی زخم کو چھیڑ دیتی ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں: کیا میں واقعی وقت سے بھاگ رہا ہوں، یا وقت مجھے چھوڑ چکا ہے؟
دوسرا دن: دوسری صبح
سر میں درد کا ایک خوفناک طوفان ہے۔ ڈاکٹر کہتا ہے یہ نیند کی کمی ہے، مگر میں جانتا ہوں یہ میری بے خوابی نہیں، بلکہ میری بے چینی ہے جو مجھے اندر سے کھا رہی ہے۔ میں نے کل رات بستر پر لیٹے ہوئے اپنے ہاتھوں کو دیکھا – وہ کانپ رہے تھے۔ کیا یہ میں تھا، یا میرا کوئی اور روپ؟
تیسرا دن: تیسری صبح
ریفریجریٹر کھولا تو آئس کریم پگھل چکی تھی۔ بالکل میری طرح۔ میں نے اسے چمچے سے کھانا شروع کیا تو محسوس ہوا جیسے میں اپنا ہی وجود نگل رہا ہوں۔ میٹھا کھاتے ہوئے مجھے اپنی ماں یاد آئی – وہ کہا کرتی تھی: "زیادہ میٹھا مت کھایا کرو، ذیابیطس ہو جائے گی"۔ مگر اب تو میرا وجود ہی شکر بن کر رہ گیا ہے۔
تیسرا دن: دوپہر
آفس میں میرے جونیئر نے مجھے "بھلکڑ" کہہ دیا۔ میں نے فائل اٹھائی اور اس کے منہ پر دے ماری۔ سب حیران تھے، مگر میں جانتا تھا: یہ غصہ نہیں تھا، یہ میری بے بسی تھی جو باہر نکل آئی تھی۔ کام کے دوران میں نے محسوس کیا جیسے میری انگلیاں کی بورڈ پر نہیں، بلکہ خلا میں تیر رہی ہوں۔ ایک لامتناہی خلا۔۔
چوتھا دن: سہ پہر
گھر میں ٹی وی کی آواز نے ہر کونے کو بھر دیا ہے۔ میں نے اسے صرف اس لیے نہیں بند کیا کہ خاموشی سے میری سانسیں بھی سنائی دینے لگتی ہیں۔ کھانے کا سامان میرے سامنے پڑا ہے – یہ میرا ساتھی ہے، میرا دشمن ہے، میرا everything ہے۔
پانچواں دن: صبح
آج میں بائیک کی بجائے پیدل نکل پڑا۔ راستے میں مجھے احساس ہوا کہ میں آج پیدل ہی نکل پڑا ہوں۔ میں واپسی پر خود کو مائل نہ کرسکا اور یونہی پیدل ہی چلتا رہا۔ کیا یہ کوئی اشارہ تھا؟ کیا میں واپس نہیں جانا چاہتا؟ دفتر پہنچا تو سب نے میری طرف عجیب نظروں سے دیکھا۔ شاید وہ میرے خاک آلود لباس کو دیکھ کر ایسا ردعمل دے رہے تھے یا وہ سمجھ گئے تھے کہ میں اب پہلے جیسا نہیں رہا۔
چھٹا دن: صبح
میں بستر پر لیٹا ہوں۔ گھڑی نہیں ہے، اس لیے وقت کا احساس نہیں۔ فون کی بیٹری ختم ہو چکی ہے۔ میں جانتا ہوں مجھے کہیں جانا ہے، مگر کہاں؟ میرے اندر کچھ پگھل رہا ہے – شاید میرا وجود، شاید میری پہچان۔
اختتام:
"میں تیار ہو رہا ہوں۔ جیسے ہی یاد آئے گا، نکل پڑوں گا۔ شاید اس بار میں چلا تو جاوں مگر واپس نہ آ پاٶں"۔۔