1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ایمان ملک/
  4. اب ہمارے نام سے ہوںگی روایتیں زندہ

اب ہمارے نام سے ہوںگی روایتیں زندہ

دور حاضر کے اس جدید دور میں چونکہ جنگیں بھی جدید طور طریقے اختیار کر چکی ہیں اور ان کے لوازمات اور کردار یکسر بدل چکےہیں۔ اس لئے اب سامنے سے وار کرنے کی بجائے دشمن چھپ کر پشت پر وار کرنے کو ترجیح دیتا ہے تاکہ ہمیں تدبیر کرنے کی مہلت نہ مل سکےاور ایسی جنگوں میں دشمن کا مرکزی ہدف ہماری کمزوریاں ہوتیں ہیں۔ لہٰذا ایسی جنگوں میں افواج کے علاوہ دیگر ریاستی مشینری بشمول عوام کو بھی ہمہ وقت ذہنی اور اعصابی طور پر کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان وہ واحد خوش نصیب ملک ہے جس کی عوام نے گزشتہ ایک دہائی سے نہایت جواں مردی اور حوصلے سے دہشت گردی کے اس فتنے کا مقابلہ کر کے دنیا بھر کی تاریخ میں ایک نئی روایت کے قیام کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ اس جنگ میں جہاں ہمارے ملک کی فوج میں سے ہمت و شجاعت کی عظیم داستانیں رقم کرنے والے بے شمار سپاہی سامنے آئے وہیں ہماری پولیس سروس اور عوام میں سے بھی متعدد ایسے کردار ابھرے جو روز ابد تک سب کے لئے زندہ مثال بن گئے۔

ابھی ہمارے ذہنوں میں ایس پی چوہدری اسلم، کم سن ہیرو شہید اعتزاز حسن اورسانحہ اے پی ایس کی بہادر پرنسپل اور اساتذہ کے نقوش تازہ ہی تھے کہ بزدل دشمن نے ایک بار پھر برقعوں میں چھپ کر نہتے طالب علموں کو نشانہ بنانا چاہا۔ ابھی ہمارے اذہان میں سانحہ اے پی ایس کی گونج بھی تھمی نہیں تھی کہ دشمن نے ایک بار پھر دسمبر کو لہو رنگ کرنے کی بزدلانہ کوشش کی۔ مگر اس سانحے میں چند افراد پلک جھپکنے میں 'عام لوگوں' سے 'ہیروز' بن گئے انہوں نے ہم سب پر باور کر دیا کہ ضروری نہیں کہ ہیرو بننے کے لئے شہید ہی ہوا جائے بلکہ زندہ رہ کر بھی لوگ اپنے کارہائے نمایاں سے ہمیشہ کے لئے تاریخ میں امر ہو سکتے ہیں۔

حال ہی میں زرعی تربیتی ادارے پشاور پر ہونے والے حملے کے دوران ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے ایک بہادر طالبعلم نے ہمارے دلوں میں شہید اعتزاز حسن کی یاد تازہ کر دی جو خودکش بمبار کو اپنے اسکول میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے خود تو جام شہادت نوش کر گیا تھا مگر اس نے سینکڑوں طالبعلموں کی جان اپنی جان نچھاور کر کے بچا لی تھی۔ زرعی تربیتی ادارے پشاور پر حملے کے وقت یہ طالبعلم بھی وہیں موجود تھا۔ باوجود اس کے یہ دہشت گرد بھی خودکش جیکٹ پہنے ہوئے تھے یہ نوجوان ڈرا نہیں بلکہ اس نے بر وقت سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دہشت گرد کو دبوچ کر اس سے بندوق چھین لی اور اسے کمرے میں بند کر دیا جو بعد ازاں سیکورٹی فورسز کی جانب سے جہنم واصل کر دیا گیا۔ اسی چھینا جھپٹی میں اس طالبعلم کی انگوٹھے کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی۔ اوراس نوجوان نے نجانے کتنی جانیں بچا لیں ورنہ وہ خود کش بمبار اگر ہاسٹل میں خود کش دھماکہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو نجانے کتنے مزید گھروں میں صفِ ماتم بچھتا۔ بلا شبہ بہادری کی یہ داستانیں غیر معمولی ہیں اور ہمیں پورے معاشرے کے لئے مثال بننے والے ان نوجوانوں کی کھلے دل سے حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے اور حکومت پاکستان کو اس طالبعلم کے لئے فی الفور کسی قومی اعزاز کا اعلان کرنا چاہیئے کیونکہ یہ طالبعلم اس سے کہیں زیادہ کا مستحق ہے۔

قانون کے نفاذ اورامن کے قیام کے لئے کسی بھی ریاست میں پولیس کا وجود ناگزیرسمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ قانون کی قوت اور نظام عدل و آئین کا پہلا زینہ ہے۔ لہٰذا پولیس ہے تو ملک میں قانون ہے دستور ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں پولیس کا امیج بظاہر کوئی اتنا اچھا نہیں مگر پولیس سروس میں بھی بےشمار پولیس آفیسرز ایسے ہیں جو اپنی اہلیت، فرض شناسی، اور لگن کی وجہ سے اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اور وہ سفارش یا خوف کو خاطر میں نہیں لاتے اور ایسے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیتے ہیں کہ لوگ اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

ایسے ہی ایک فرضشناس افسر ایس ایس پی آپریشنز سجاد خان بھی ہیں جنہوں نے فرضشناسی کی تاریخ میں ایک نئی مثال اس وقت رقم کی جب زرعی تربیتی ادارے پشاور میں دہشت گردوں کے حملے کے چند منٹوں کے بعد ہی طلبہ کی کال پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ انہوں نے وردی پہننے کے لئے بھی وقت ضائع نہیں کیا بلکہ سلیپنگ سوٹ میں ہی اپنے فرائض کی انجام دہی کررتے رہے۔ اس آپریشن میں مرکزی کردار کے پی کے پولیس کے اسپیشل کومبیٹ یونٹ (انسدادِ دہشت گردی ونگ) نے ادا کیا۔ جس کی قیادت بذاتِ خودایڈیشنل آئی جی کے پی کے طاہر خان ایس ایم جی کلاشنکوف ہاتھ میں لئے شرپسندوں کا مردانہ وار مقابلہ کر کے کر رہےتھے۔ اور یوں پو لیس فورس نے باقاعدہ ایک حکمت عملی کے تحت دہشت گردوں کو ایک ہاسٹل تک محدود کر دیا، انہیں نہ صرف آرمی کے آنے تک انگیج کئے رکھا گیا بلکہ بذریعہ اے پی سی( آرمڈ پرسنل کیریئر) ہاسٹل کی عقبی جانب سے زخمی طلبہ اور دیگر طلبہ کو بھی بحفاظت نکال لیا گیا۔ اس حملے میں نو پاکستانیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے مگر جتنی بڑی تعداد میں اسلحہ دہشت گردوں کے پاس سے بازیاب ہوا ہے اسے دیکھ کےیہی لگتا ہے کہ وہ ایک اور اے پی ایس کی طرز کا حملہ پلان کر کے آئے تھے کیونکہ ان کے پاس خود کش جیکٹس کے علاوہ دستی بم کلاشنکوف اور نجانے کیا کیا تھا کہ جنہیں استعمال کرنے کی مہلت ہی پاک فوج اور پولیس نے نہیں دی اور انہیں جہنم واصل کر دیا گیا۔ ورنہ پٹھانکوٹ بھارت میں ائیر بیس پرحملہ تو ہمیں یاد ہی ہے جس میں وہ اپنی ائیر بیس کو نو دس روز تک بھی کلئیر نہیں کروا سکے تھے۔ مگر کے پی کے پولیس نے پاک فوج کے ساتھ ملکر جس پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعے دشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنایا اس کی تعریف پاک فوج کی جانب سے تو کی ہی گئی بلکہ سوشل میڈیا پر عوام نے بھی دل کھول کر اپنے جان و مال کے محافظوں کو خوب داد دی۔

تشویش طلب بات یہ ہے کہ اے پی ایس پشاور، باچا خان یونیورسٹی کی طرح یہ حملہ بھی افغان سر زمین سے کنٹرول ہو رہا تھا اور جس دن سرحد پار سے بھیجے گئے ان خودکش شر پسندوں نے زرعی تربیتی ادارے پشاور پر حملہ کیا ٹھیک اسی دن افغان صدد اشرف غنی نے بھی پاکستان سے براہِ راست مزاکرات کی پیشکش کر دی جو بالکل چور کی داڑھی میں تنکے کے مترادف تھی۔ کیونکہ چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے افغانستان میں دہشت گردی کی مد میں بھارتی ایجنسی راء کی 500 ملین ڈالر کی حالیہ سرمایہ کاری کا ذکر چند روز قبل ہی کیا تھا جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع ہوئی جس میں کوئٹہ سے پشاور تک نجانے کتنے لوگ لقمہ اجل بنے۔ پشاور میں ہونے والے حالیہ واقعے میں تو دہشت گردوں کو براہِ راست افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔ جبکہ افغانستان میں دہشت گردی کرنے اور کروانے والوں کا نیٹو فورسز کی ناک کے نیچے موجود ہونا نیٹو فورسز اور امریکی ڈرونز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جو دانستہ طور پر کبھی ملا فضل اللہ کے ٹھکانے پر نہیں گرایا گیا، جو ایک عرصے سے پاکستان میں افغانستان سے دہشت گرد بھیج بھیج کر خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔

مگراب جنرل باجوہ نے قوم کی دلی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی خواب و خیال میں نہ رہے، پاکستان کی طرف سے اب 'نو مور' ہے نیز افغانستان کی سر زمین سے پاکستان میں بھارتی مداخلت اور افغان مہاجرین کی جلد وطن واپسی کو یقینی بنانے کے حوالے سے افغان حکومت کی غیر سنجیدگی پر بھی اپنے تحفظات سے امریکی حکام کو آگاہ کر دیا ہے۔ یقیناً! دشمن کی بزدلانہ کارروائیوں سے ہمارے حوصلے ہرگز پست نہیں ہونگے۔ دہشت گردوں کے عزائم سےمعلوم ہوتا ہے کہ وہ غیروں کے اشاروں پر چل کر پاکستان کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔ جہاں ہمیں اس ناسور سے نمٹنے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے وہیں اس ضمن میں پاک فوج، عوام اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جانے دی جائیں گی۔ انشاء اللہ!


ایمان ملک

Eiman Malik

ایمان ملک نے نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی اسلام آباد سے پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ایمان ملک ایک کالم نگار، محقق اور شاعرہ ہیں۔ اوراس وقت وہ نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں انسدادِدہشت گردی اوراس سے جڑی نت نئی جہتوں پر تحقیقاتی اُمور سر انجام دے رہی ہیں۔ایمان ملک اُمورِ خارجہ، پاک بھارت تعلقات، سیکورٹی کے معاملات اور اُمورِانسدادِ دہشت گردی پر مکمل دسترس رکھتی ہیں۔ علاوہ ازیں،ایمان ملک نے گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیے کی تشکیل میں بذریعہ الیکڑنک میڈیا ایک ناقابلِ فراموش کردارادا کیا۔ اور وہ ایک شہید ملٹری آفیسر کی چھوٹی بہن ہیں جنکی شہادت مہمند ایجنسی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہوئی۔ اسی لئے اُنکی تحاریراور شاعری میں اس جنگ سے ہونے والی تباہ کاریوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔