1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. آئیں آواز سے آواز ملائیں

آئیں آواز سے آواز ملائیں

بتایا جارہاہے کہ سرکاری اخراجات میں کمی کے لئے وزیراعظم کی قائم کردہ "کفایت شعاری کمیٹی" نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ "5لاکھ روپے سے زیادہ پنشن نہ دی جائے۔ کابینہ چھوٹی بلکہ مختصر رکھی جائے۔ بڑی گاڑیوں کا استعمال بند کردیا جائے۔ ریٹائر افسران کی مراعات ختم کردی جائیں۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 15فیصد کمی کی جائے۔ سرکاری ملازمین، بیوروکریٹس، ججوں اور افواج کے افسروں کو ایک سے زائد پلاٹ نہ دیئے جائیں۔

جون 2024ء کے بجٹ تک صوابدیدی فنڈز اور خفیہ سروس فنڈز منجمد کئے جائیں۔ سکیورٹی پروٹوکول میں کمی کی جائے۔ نئی بھرتیوں پر پابندی لگائی جائے۔ تجاویز اچھی ہیں لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟"

کہتے ہیں وزیراعظم نے ان سفارشات سے اتفاق کیا ہے۔ یہ لطیفہ ہی ہے کیونکہ اگر وزیراعظم نے کل یا گزشتہ سے پیوستہ روز ان سفارشات سے اتفاق کیا ہے تو انہی دنوں میں انہوں نے خصوصی معاونین کی تعداد میں اضافہ بھی کرلیا۔

اصولی طور پر انہیں سفارشات کی روشنی میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے کابینہ اور مشیران و معاونین خصوصی کی تعداد میں کمی کرنا چاہیے تھی۔ ہماری رائے میں صرف پنشن ہی 5لاکھ تک محدود کیوں رکھی جانی چاہئے بلکہ 5لاکھ سے زائد تنخواہوں پر نظرثانی کیوں نہ کی جائے۔

ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 15فیصد کی بجائے 50فیصد کمی کیوں نہ کی جائے ان کی 90فیصد اکثریت کا تعلق اشرافیہ سے ہے۔ تین سے پانچ کروڑ کے انتخابی اخراجات کا بوجھ اٹھانے والے خدمت خلق کے دعویدار ہیں تو خدمت خلق ویسے ہی کریں جیسا حق ہے۔ یہ کیا کہ آمدورفت کے اخراجات تک قوم سے وصول کئے جائیں۔

ایک سفارش یہ بھی ہونی چاہیے تھی کہ سپریم کورٹ اور پانچوں ہائیکورٹس کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا جائے۔ یاد رہے کہ ماضی میں سپریم کورٹ تھرڈ پارٹی آڈٹ سے ہی نہیں بلکہ آڈیٹر جنرل پاکستان کو اپنے مالیاتی امور سے آگاہ کرنے سے انکار کرتی رہی ہے۔ سب کو انصاف کے کٹہرے میں لانے والے خود مالیاتی معاملات میں چھان بین سے گھبراتے کیوں ہیں؟

ملازمین کی بھرتی پر پابندی کی سفارش صرف گریڈ ایک سے سولہ تک کی بھرتیوں پر نہیں ہونی چاہیے۔ افسر شاہی کی بھرتی پر بھی اطلاق ہو البتہ انتہائی ضروری پوسٹوں پر بھرتی ہونی چاہیے تاکہ سرکاری امور کی انجام دہی کے معاملات بگڑنے نہ پائیں۔

ملازمین، ججوں، فوجی افسروں اور بیوروکریٹس کو ایک پلاٹ بھی کیوں دیا جائے یہ لوگ کیا تنخواہیں اور مراعات نہیں لیتے۔ فوجی افسروں میں زرعی اراضی کی بندربانٹ بھی بند ہونی چاہیے۔

پچھلے تیس برسوں کے دوران جس جس نے ایک سے زائد پلاٹ لئے ان سے ایک سے زائد پلاٹوں کی کمرشل قیمت وصول کی جائے۔ حکومت وفاق اور صوبوں میں پلاٹ تقسیم کرنے کی بجائے فلیٹس بناکر الاٹ کرے اور یہ سہولت ہر خاص و عام کے لئے ہو ہر شخص (سرکاری ملازم) طریقہ کار کے مطابق دوران ملازمت اقساط دے کر ریٹائرمنٹ کے وقت بقایا جات ادا کرکے فلیٹ لے لے۔ اسی طرح زرعی رقبوں کی بندربانٹ ہو یا ان پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر، دونوں پر قانونی پابندی لگنی چاہیے۔ فوجی افسران کو الاٹ شدہ رقبے بے زمین کاشتکاروں کو دیئے جائیں۔

جو افسران زرعی رقبے رکھنا چاہتے ہوں وہ پنشن اور دوسری مراعات سے دستبردار ہوجائیں۔ ایوانِ صدر وزیراعظم ہائوس، گورنر ہائوسز اور وزرائے اعلیٰ ہائوسز کے سالانہ اخراجات میں 50 فیصد کمی لائی جائے۔

دفاعی اخراجات میں فوری طور پر 30فیصد کمی کی جائے۔ مسلح افواج کی تین کھرب روپے سے زائد کی پنشن کو سول بجٹ سے نکال کر دفاعی بجٹ کا حصہ بنایا جائے۔ دفاعی بجٹ کی آڈٹ رپورٹ ہر سال بجٹ سے قبل پارلیمنٹ میں پیش کی جائے اس پر کم و بیش ایک ہفتہ عام بحث ہو۔

سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کی انٹرنل آڈرٹ رپورٹیں ہی سہی انہیں پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ انتخابی اخراجات کی بے لگامی ختم کرنے کے لئے اخراجات کی نئی حد مقرر کی جائے اور الیکشن کمیشن کو ایسی معاونت فراہم کی جائے کہ وہ آزاد ذرائع سے تصدیق کرسکے کہ کیا امیدواروں نے انتخابی اخراجات کے جو گوشوارے جمع کروائے ہیں وہ درست ہیں یا بس کاغذی کارروائی ہی کی ہے۔

ججز کی بھرتی کے لئے پارلیمنٹ کمیٹی کی سفارشات لازمی قرار دی جائیں اور اس میں عدلیہ کے حاضر سروس ججز کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ نیم سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں کے سربراہوں کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ سے مشروط ہو۔ نجکاری کی بجائے اداروں کو فعال بنانے کی حکمت عملی اپنائی جائے۔

ریاست کے ہر شہری کی تعلیم، صحت اور روزگار کی ضمانت مملکت پاکستان دے۔ شہری سیاسی اور مذہبی آزادیوں سے متصادم نظریات کی ترویج پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔ پارلیمان ایک ہسٹری کمیشن بنائے جو غلامانہ ذہنیت کے فروغ اور حملہ آوروں کو ہیرو بناکر پیش کرنے والی تاریخ کی جگہ حقیقی تاریخ مرتب کرے۔

سول مقدمات کا فیصلہ 6ماہ میں اور فوجداری مقدمات کا فیصلہ تین سے 6ماہ میں ہونا لازمی قرار دیا جائے۔ سرکاری ملازمین کی ایک جگہ تقرری کی کم سے کم مدت 2سال ہو اور اس پر سختی سے عمل ہونا چاہیے ماسوائے معلمین و معلمات کے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے خودانحصاری کو فروغ دیا جائے اور یہ کہ کم از کم پچھلے 40سال میں لئے گئے قرضوں کے حوالے سے پارلیمنٹ میں بتایا جائے کہ ان میں سے کتنی رقم دفاع اور کتنی غیردفاعی اخراجات پر خرچ ہوئی۔

مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ کفایت شعاری کمیٹی کی سفارشات چوں چوں کا مربہ ہیں۔ کمیٹی کے ارکان کو حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے تھا انہیں یہ تجویز ضرور دینی چاہیے تھی کہ پچھلے 40برسوں کے منتخب نمائندوں، فوجی حکمرانوں، ججز، بیوروکریٹس، فوجی افسروں سے ڈیکلریشن لیاجائے کہ اپنے اپنے شعبے میں آمد کے وقت ان کے اور اہلخانہ کے اثاثے کیا تھے اور اب کیا ہیں۔

جو بھی شخص موجودہ اثاثوں کے جائز ہونے کے قانونی ثبوت فراہم نہ کرسکے اس کے اثاثے ضبط کرلئے جائیں۔ پیارے قارئین! یقیناً آپ کو کفایت شعاری کمیٹی کی تجاویز کے بعد لکھی گئی تجاویز پر حیرانی ہوگی۔ ہونی نہیں چاہیے سرکاری ملازم سرکاری ملازم ہی ہوتا ہے وہ کوئی بھی ہو جو بھی شخص عوام کے خون پسینہ کی کمائی سے تنخواہ لیتا ہے وہ قابل احتساب ہے۔

یہاں ہر محکمہ اور ادارہ انٹرنل احتساب کی کہانی سنانے لگتا ہے میری رائے میں وسیع تر احتساب کے لئے نیب کے قوانین میں ترامیم کی جانی چاہئیں۔ اسی طرح مقدس گائے پالنے کا شوق بھی بند ہونا چاہیے۔

کسی بھی ریٹائر سرکاری ملازم، افسر، جج، فوجی افسر وغیرہ کو دوبارہ کسی بھی قسم کی ملازمت نہیں دی جانی چاہیے اور اگر دینی ہے تو نئی مدت ملازمین کے دورانیہ میں اسے پچھلی ملازمت کی پنشن اور مراعات نہ دی جائیں۔ اسی طرح میڈیا ہائوسز کے ملازمین کے تحفظ کے لئے سرکاری و نیم سرکاری اشتہارات ویج بورڈ ایوارڈ سے مشروط کئے جائیں۔ سرکاری خرچے پر عمرے اور حج کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

مفت تعلیم کے ساتھ مفت طبی سہولتیں ہر شخص کا حق تسلیم کیا جانا چاہیے۔ تعلیم اور طبی سہولتوں کو کاروبار بنالینے والوں کا محاسبہ بہت ضروری ہے۔ کسی بھی سطح پر ایکسٹنشن کی بدعت فوری ختم کی جانی چاہیے۔ حکومت سرکاری اور نجی شعبہ میں تنخواہ کی کم سے کم حد 35ہزار روپے مقرر کرے۔

مکرر عرض ہے ہم جس طرح کے معاشی و سماجی بحران اور مختلف شعبوں میں در آئے بگاڑ سے دوچار ہیں ان سے نکلنے کے لئے میٹھی باتوں کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پڑوسیوں سے تجارت کو فروغ دیا جائے اور سمگلنگ کو ناقابل معافی جرم قرار دیا جائے۔ صدر، وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ ملکی اور غیرملکی سفر کے دوران پبلک کلاس میں سفر کریں۔ الیکشن کمیشن کا دوسرے اداروں پر انحصار کم سے کم کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے۔

اسی طرح پولیٹیکل پارٹی ایکٹ میں ترمیم کی جائے کہ ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جانے والے کو نئی جماعت اگلے تین سال تک کوئی جماعتی عہدہ اور ایک مدت کے لئے بطور امیدوار ٹکٹ نہیں دے گی۔ معاشرے میں موجود طبقاتی خلیج کو کم سے کم کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔

سیاسی جماعتیں منتخب اداروں کی جنرل نشستوں پر فوری طور پر کم سے کم 10 فیصد نشستیں خواتین کو دیں اور اس میں ہر پانچ سال کے بعد تین سے پانچ فیصد اضافہ کیا جائے تاکہ ملک کی نصف آبادی دوسری نصف آبادی کی طرح سیاسی عمل میں شریک ہو۔

تین سے پانچ فیصد جنرل نشستوں پر خواتین کے لازمی اضافے پر عمل کی صورت میں مخصوص نشستوں میں اسی تناسب سے کمی کی جانی چاہیے۔ کسانوں اور محنت کشوں (مزدوروں) کے لئے پارلیمنٹ کے تمام ایوانوں میں خصوصی نشستیں رکھی جائیں اور ان پر مامے چاچے کی اولاد نہیں حقیقی کسان اور مزدور نامزد کئے جائیں۔

یہ مندرجہ بالا تجاویز مجھ طالب علم کی فہم کی آواز ہیں آپ ان میں کمی بیشی کے ساتھ آواز سے آواز ملایئے تاکہ بات آگے بڑھ سکے۔