1. ہوم
  2. کالمز
  3. حیدر جاوید سید
  4. سنگت آباد رہے ہمیش

سنگت آباد رہے ہمیش

امڑی حضور کے شہر ملتان میں یہ سطور لکھتے وقت چوتھا دن ہے۔ علالت کے باعث محدود رہنے کی مجبوریاں "واجب" کی طرح مسلط ہیں۔ گزشتہ جمعہ کی دوپہر اپنی جنم بھومی ملتان میں قدم رکھا تو خوشی چھپائیے نہیں چھپ رہی تھی۔

بس سے نیچے اترتے وقت مجھے لگا کہ ملتان کی ہوائوں نے سماعتوں پر ایک سوال رکھ دیا ہے۔ سادہ سا سوال تھا لیکن آنکھیں بھیگ گئیں۔ ملتان نے ملتانی سے پوچھا، یوں کہہ لیجئے کہ جواب طلب کیا کہ اس بار امڑی کے شہر میں آنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ کیا جواب دیتا کوئی ایک وجہ ہوتی تو بیان کرتا ایک سے زائد مجبوریاں تھیں۔

اب بھی ہیں کم نہیں ہوئیں لیکن سفر کرنا پڑا۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے ملتانی ملتان سے رخصت ہوچکا ہوگا۔ جمعہ کی شام برادران عزیز حارث اظہر اور میر احمد کامران مگسی سے نشست رہی ہر دو عزیز اپنے وسیع مطالعے مشاہدے اور فکری استقامت کی وجہ سے بہت عزیز ہیں۔

حارث اظہر جس محفل کی رونق ہوں وہاں سوال صرف وہ کرتے ہیں کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے سوالات کی گٹھڑی باندھ رکھی ہے اور موقع ملتے ہی گرہ کھولتے ہیں ایک ایک کرکے سوالات اس دوست کے سامنے رکھتے چلے جاتے ہیں جس کے بارے میں ان کی رائے یہ ہو کہ یہ دوست ان کے سوالوں کا جواب دے پائے گا۔

انہیں ہمارے بارے میں بھی غلط فہمی ہے گو کہ ہم ہر ملاقات میں کوشش پوری کرتے ہیں کہ وہ اپنی رائے سے رجوع کرلیں لیکن پھر کوئی نہ کوئی بات یا جواب انہیں ایسا دل لگتا ہے کہ اپنی رائے کے درست ہونے پر شاداں ہوتے ہیں۔

حالیہ ملاقات میں ان کے تلخ و شیریں اور مطالعے و مشاہدے سے عبارت سوالات تو تھے ہی البتہ ان کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ جس طرح کے حلات بن رہے ہیں ان میں مزید احتیاط لازمی ہے۔ مزید احتیاط کیا ہو؟

کیا سفید کوے کو سرخ اور کالے کو سفید کہا لکھا جائے؟

بولے نہیں یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ بات کہنے لکھنے کا ہنر آپ کو آتا ہے بس اتنا کیجئے کہ "سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے"۔

اب اس کا کیا کیجئے کہ سانپ کو مارنے کے لئے لاٹھی استعمال کریں گے تو زیادہ نہ سہی ہلکی پھلکی "ڈھب گھب" (شور شرابا) تو ہوگی ہی۔ ویسے ہمارے یہاں یعنی اسلامیہ جمہوری ایٹمی پاکستان کے سانپ کینچلی بدلنے میں بڑے ماہر ہیں کب دین فروش بن جائیں، کب جمہوریت پسند اور کب مداری کا بندر، یہ وقت بتاتا سمجھاتا ہے۔

اب یہ نہ پوچھ لیجئے گا کہ مداری کون ہے اور بندر کون؟ مداری 78 برسوں سے ایک ہی ہے ایک دو بار کوشش ہوئی کہ مداری اپنے اصل مقام پر مجمع لگائے لیکن جنہوں نے کوشش کی ان کے ساتھ کیا ہوا تفصیل لکھنے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ جانتے سبھی ہیں بس دوسرے کے بولنے کا انتظار کرتے ہیں۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو بول سکتے ہیں ان میں سے اکثر آج بھی جمہوریت اور سیاستدانوں کو ہی منہ بھر کر گالیاں دیتے ہیں ان کی بھی پوری کوشش یہ ہوتی ے کہ انوکھا دِکھنے میں کپڑے سیاستدانوں کے ہی اتاریں ان حالات کا تجزیہ کرنے سے گریز کریں جن میں مشکلات و مسائل اور جبروستم سے لڑبھڑ کر سیاستدان آگے بڑھنے کے لئے راستہ نکال لیتے ہیں۔

اس حد تک تو میں ان دوستوں سے متفق ہوں کہ یہاں سیاستدان ہیں کتنے دو چار ہزار کے بیچ۔

مگر ایسا غضب بھی نہیں اترا کہ جماعت اسلامی کے پوسٹر بوائے کو سیاستدان تسلیم کرلیا جائے۔ یہ جماعت اسلامی اور پوسٹر بوائے والی بات رواروی میں ہوگئی ورنہ ہم عالمگیر انقلاب اسلامی کے اس آخری "مورچے" کی دل سے قدر کرتے ہیں۔

دل سے قدر کرنے کا جو نتیجہ دل کی بیماری کی صورت میں ملا وہ "وقت کا انصاف" ہی ہے۔

وقت کے انصاف کو تحریک انصاف اپنے رسک پر سمجھیں ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہرگز نہیں کیونکہ تحریک انصاف اور اس کے لوگوں کے بارے میں جناب عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان نے پچھلے دنوں جو ارشاد فرمایا اس کی تردید کا یارا تو خود انصافیوں میں نہیں ہم کیوں تردید کریں یا اگر مگر۔

عرض یہ کررہا تھا کہ گزشتہ جمعہ کی شام حارث اظہر اور میر احمد کامران مگسی سے خوب نشست رہی احمد کامران مگسی ہمارے خطے (سرائیکی وسیب) کے معروف اور روشن خیال سکالر علامہ رحمت اللہ طارق مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ علامہ صاحب نے اپنی روشن فکری سے جس ماحول اور وقت میں چراغ روشن کئے وہ بھلا وقت تھا تب لوگ ایک دوسرے کی بات تحمل سے سنتے اور شائستہ انداز میں مکالمہ کرتے تھے۔ آج کل لوگ مکالمے سے زیادہ "خنجر بازی" کا شوق پالے ہوئے ہیں۔

میں میر احمد کامران مگسی کو ہمیشہ سمجھاتا ہوں کہ جس عہدِ نفساں میں ہم آپ جی رہے ہیں اس میں سوچیں آزادی کے ساتھ لیکن بولیں کامل احتیاط کے ساتھ ایک وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے اور ان کے جنم شہر میں دو مصلی ایک جوتی فروش اور چند دوسروں نے توہین مذہب کا کاروبار شروع کررکھا ہے انہیں جن کی "شکلات" اور ذات پسند نہیں آتی اسے توہین مذہب کے نام پر دھمکانا شروع کردیتے ہیں۔

بہرطور دھندہ جو بھی اور جس کا بھی ہو وہ اپنے دھندے کو بڑھانے کے لئے اندھا جذباتی ہوا رہتا ہے اس لئے میر کامران مگسی اور ان کی فہم کے ہم خیال دوستوں اور نوجوان عزیزوں کو احتیاط اس لئے بھی کرنی چاہیے کہ دھندے بازوں کا کوئی بھروسہ نہیں۔ یہ لوگ مولویوں، مفتیوں دونمبر سکالروں وغیرہ کو تو رعایتی نمبر دے دیتے ہیں مگر عام آدمی کی سنجیدہ بات اور سوال پر یوں بھڑک اٹھتے ہیں جیسے قیامت برپا ہوگئی ہے۔

یہ بجا ہے کہ ہر اس شخص کو جو عصری شعور کی دولت سے مالا مال ہے سماج سدھاری میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے لیکن یہاں مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ چار اور ایسے جاہل بوزنے خنجر بدست ہوئے دندناتے پھر رہے ہیں کہ "اللہ معافی اللہ کافی" کے مصداق معاملہ ہوگیا ہے۔

ہمارے عزیز خواجہ ضیاء صدیقی نے اپنے نئے اور ذاتی سائبان (گھر) پر اتوار کی صبح پرتکلف ملتانی ناشتے کا اہتمام کرکے دریا دلی سے دوستوں کو مدعو کیا "سائبان خواجہ" میں ناشتے کی میز پر ملک ارشد اقبال بھٹہ، امجد سعید تھہیم، شیراز اویسی المعروف پیران پیر، استاد منیرالحسینی، برادرم اعجاز حسین صدیقی، کامریڈ دلاور عباس صدیقی، ملک عبدالرئوف کامران مگسی، سید خالد بخاری ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔

دوستوں کے اس ہجوم میں جہاں دوسرے موضوعات پر بات ہوئی وہیں ہم نے ایک بار پھر عزیزم کامران مگسی کی خدمت میں عرض کیا، پیارے ہر قسم کے مصلی اور دھندے باز سے بچ کر اپنا سفر جاری رکھو سفر ہرگز نہیں رکنا چاہیے "سوال" تبدیل کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ مطلب یہ کہ ہمیں اپنی بات ضرور کرنی چاہیے لیکن دوسروں کے بائولے پن سے بچ بچاکر۔

خواجہ ضیاء صدیقی ملتانی وسوں کے روشن خیال سیاسی کارکن اور سماج سدھار ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے ہی رجعت پسندی کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں ان کے ذاتی سائبان (گھر) کی مبارکباد دینا لازمی تھی اس کی دو تین وجوہات ہیں اہم وجہ یہ ہے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ خواجہ صاحب ہماری والدہ محترمہ کی ایک منہ بولی صاحبزادی کے داماد ہیں ہمارے ایک بہنوئی کی وفات پر وہ تعزیت کے لئے اپنی اہلیہ سمیت تشریف لائے تو اس رشتے کا راز کھلتے ہی ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا

"اچھا ہنڑ پتہ لگے جو داماد گچی پے گئے"۔

سرائیکی کے جملے کا لطف لیتے ہوئے ترجمہ خود کیجئے۔ آخری بات روایتی سیاسی کالم کی جگہ مزید ایک دو کالموں میں دوستوں سے ملاقاتوں اور نشستوں کے احوال کے ساتھ ملتانی منڈلی کے اجلاس کی روداد ان سطور میں عرض کروں گا اور پانچویں سوجھل قومی ادبی ثقافتی کانفرنس پر بھی بات ہوگی۔