1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. خیر اندیش کا اندیشہ

خیر اندیش کا اندیشہ

روئی کا پرانا گدا کبھی جو دیکھا ہو۔ روئی اکٹھا ہوکر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ان ٹکڑوں میں آپس میں ربط ختم ہوجاتا ہے اور ان کے درمیان بہت سی خالی جگہ بن جاتی ہے۔ گدے کا باہری کپڑا اور اس کو نگندنے کے لیے ڈالے گئے دھاگے بھی ان روئی کے ٹکڑوں کو مربوط رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ایسے گدے پر بیٹھنے سے آسودگی کی بجائے باقاعدہ چبھن اور تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔

پھر کیا ہوتا ہے؟ گھر کی بڑی بوڑھی اس کو کاٹ، ادھیڑ روئی الگ اور کپڑا الگ کردیتی ہیں۔ روئی کو پینجے میں سے گزارا جاتا ہے۔ پینجا ایک بڑے سے لکڑی کے ڈرم پرمشتمل ہوتا ہے جس میں سینکڑوں نوکدار کیلیں لگی ہوتی ہیں۔ یہ نوکدار کیلوں والا لکڑی کا ڈرم بہت تیزی سے گھومتا ہے جب روئی اس کے پاس سے گزاری جاتی ہے تو وہ اسے باریک ریشوں میں تبدیل کردیتا ہے۔

اس دھنکی ہوئی روئی کو پھر سے گدے کے کپڑے میں ڈال کر لکڑی کی چھڑی سے خوب ٹھونک بجا کر برابر کیا جاتا ہے۔ تب جاکر دوبار دھاگوں سے سی کر گدا واپس اصل حالت میں آتا ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے جو قوانین فطرت پر چلتا ہے۔ یہ قوانین فطرت پتھروں، چرند پرند اور انسانوں سب پر ایک سے منطبق ہوتے ہیں۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی افراط اور مسلکی تفریق ہمیں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منقسم کررہی ہے۔ تس پر لسانیت، علاقائی عصبیت اور معاشی تفاوت مہمیز کا کام کرتے ہوئے ہمیں بالکل ہی بانٹ رہا ہے۔ اگر بڑوں کی ہٹ دھرمی، خود پسندی اور مفاد پرستی ایسے ہی جاری رہی تو خاکم بدہن وطن و مذہب کی ڈوریاں اور ثقافت وجغرافیہ کی رسیاں بھی ہمیں ٹکڑوں میں تقسیم ہونے سے باز نہ رکھ پائیں گی۔

جیسے انسانی فطرت ٹکڑوں میں بٹی روئی کو ناپسند کرتی ہے ویسے ہی قدرت ٹکڑوں میں بٹے ہجوم نما معاشرے سے عاجز ہے۔ ایسے معاشرے کا نظامِ قدرت میں کوئی مصرف نہیں۔ تقسیم صرف بے توقیری میں اضافہ کرتی ہے۔ تاوقتیکہ افراد کو انقلاب کے خون آشام پینجے میں سے گزار کر ان کے ازسر نو فکری تعمیر نہ کردی جائے۔ بصورت دیگر بہتر افکار واعمال والے اغیار مسلط کردیئے جاتے ہیں۔

ہزاروں سال کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اپنی انا اور ذات یا برادری سے آگے دیکھ پانے سے عاری معاشروں کا انجام سوائے اس کے اور کوئی نہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے مگر ناگزیر، گر روش نہ بدلی گئی تو جانے ہم سے کتنے ہی متنفس، انقلاب کی تطہیر پار نہ کرپائیں گے۔ سو میرے ہم نفسو، ابھی بھی وقت ہے۔ حالات کی نزاکت کو سمجھو، تھوڑا صبر حوصلے سے کام لو۔ تھوڑا ٹھہر کر بھلے برے کی تمیز کرو۔

اپنی وابستگی کی عینک سے نہیں، ضمیر کے پیمانے پر خیر اور شر کی تفریق کرو، اپنی ذات اور وابستگی سے بالا ہوکر ملک و معاشرے کے مفاد کے لیے کام کرو۔ بخدا فکر گر راست ہو تو شر سے بھی خیر کے پہلو نکلتے رہتے ہیں۔ خدا کے لیے خود کو ناکارہ ٹکڑوں میں بٹنے سے روک لو۔

تمہارا خیر اندیش۔