1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. ہاتھ

ہاتھ

بھٹی صاحب تو گواہ ہیں، فرط جذبات میں مغلوب ترین حالت میں بھی کم از کم ہاتھ کی ستائش لبوں پر نہ تھی۔

مجھے ہاتھ کی ساخت کے بارے میں کبھی غور کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ویسے بھی میرے پاس غور کرنے کے لیے دیگر معاملات زندگی ایک عرصے بہتات میں رہے۔ کوئی ہاتھ سوائے زمانے کے تھپڑوں والے ہاتھ کے ان میں شامل نہ تھا۔ پھر یہ ہوا کہ ایک موقع پر اس بارے میں کئی دنوں تک مفصل، مکرر اور بارہا تبادلہ خیال ہوا۔ مجھے ہاتھ کا حسن تب بھی سمجھ نہ آیا۔ اتفاق دیکھیے کہ اس کے کئی ہفتوں بعد میں نے پہلی بار ایسے ہاتھوں پر غور کیا جو ایک عرصے میرے ساتھ رہے۔۔ اور پھر۔۔ بس انہی ہاتھوں کو حسین ترین پایا۔

رومانس مجھے آتا نہیں شاید۔ مجھے تو ہاتھ کے حسن کا ادراک کرتے اڑتیس برس لگ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہاتھ کسی مخصوص انسان سے منسوب وہ پہلا حصہ ہے جس کی تعریف پہلی بار کرنے جا رہا ہوں۔ باقی اعضاء کبھی اِس کے تو کبھی اُس کے اچھے لگ ہی جاتے ہیں، ہاتھ پہلی بار ہی کسی انسان کے حسین لگنا شروع ہوئے۔

بہرحال یہ وہ ہاتھ ہے جو جوانی بلکہ نوجوانی سے میرے ہاتھ میں رہا، جو ہمہ وقت ساتھ رہا۔ یہ وہ ہاتھ ہے جس نے تب میرا ہاتھ تھاما جب میرا ہاتھ خالی تھا، جس نے ہمیشہ بغیر سوچے سمجھے اپنا سب کچھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔ یہ وہ ہاتھ ہے جس نے ضرورت پڑنے پر سونا چاندی ہیرا جو پاس تھا وہ دان کر دیا، جس نے میرے ساتھ مل کر ہر گھر سیٹ کیا۔ یہ وہ ہاتھ ہے جس نے ہمارے مستقبل کے لیے تین بار اپنے ہاتھوں سے بنایا گھر چھوڑا اور پھر نئے سرے سے بنایا۔ یہ وہ ہاتھ ہے جس میں محبت ہے، پیار ہے، عشق ہے۔ یہ وہ ہاتھ ہے جو تینوں بچے مل جل کر پالتے رہے۔

دعا ہے کہ یہ ہاتھ تاحیات ساتھ رہیں۔ آج ان ہاتھوں کی سالگرہ ہے۔

اور یہ۔۔ میری نصف بہتر میری کے ہاتھ ہیں۔

سالگرہ مبارک۔۔