1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. پانی کا فرق رویہ

پانی کا فرق رویہ

آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ آپ پانی کا برتن بھر کر فریزر میں رکھتے ہیں، تو اس کی سطح بالکل ہموار ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ جم کر برف کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کی سطح ہموار نہیں ہوتی بلکہ سطح پر کسی طرف ایک چھوٹی سی برف کی چوٹی ابھری ہوئی ہوتی۔ اس برف کی چوٹی کی بھلا کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

دنیا بھر میں جتنی بھی اشیاء ہیں ان سب میں ایک خصوصیت مشترک ہے کہ وہ ٹھنڈا ہونے پر سکڑتی ہیں اور گرم ہونے پر پھیلتی ہیں ۔ اسی طرح تمام ٹھوس اشیاء کو جب گرم کرکے پگھلایا جاتا ہے تو ان کے مائع کا حجم ان کے ٹھوس کے حجم سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ مگر دنیا میں واحد ایک پانی ہے جس میں اس رویہ سے کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔

پانی کو جب ٹھنڈا کیا جاتا ہے تو وہ سکڑتا جاتا ہے۔۔ حتی کہ چار ڈگری سینٹی گریڈ تک اس کا رویہ تمام دیگر مادے کی اشیاء کی طرح بالکل عام سا ہوتا ہے۔ یعنی سو ڈگری کے ابلتے ہوئے پانی سے چار ڈگری سینٹی گریڈ کے ٹھنڈے پانی تک پانی سکڑتا ہی ہے۔ لیکن چار ڈگری سینٹی گریڈ کےبعد صفر ڈگری پر برف بننے تک یہ پھر سےپھیلنا شروع کردیتا ہے۔

پانی کی اس مختلف خاصیت کو (anomalous behaviour of water) انامولیس بی ہیوئیر آو واٹر کہتے ہیں ۔ پانی کے اس غیر معمولی رویہ کی وجہ سائنس ابھی تک سو فیصد نہیں جان سکی۔ بہر حال اس کے متعلق جو عمومی مفروضہ موجود ہے اس کے مطابق چونکہ پانی جب جم کر برف کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کے مالیکیول ایک خاص قسم کی ہشت پہلو شکل اختیار کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے برف کا حجم اسی وزن کے پانی کے حجم سے زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا پانی چار ڈگری سینٹی گریڈ سے صفر ڈگری سینٹی گریڈ کی برف بننے تک مسلسل پھیلتا ہے۔

اس پھیلاؤ کی وجہ سے پانی سے بننے والی برف کا حجم پانی کے حجم سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس خصوصیت کی وجہ سے ہمیشہ مشروبات کی بوتلیں لبالب نہیں بھری جاتیں ۔ ورنہ ان کے پھٹنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اسی خصوصیت کی وجہ سے سردیوں میں کوئٹہ اور سکردو وغیرہ میں پانی کے پائپ پھٹ جاتے ہیں ۔ اسی وجہ سے ٹھنڈے علاقے کی گاڑیوں کے ریڈی ایٹر میں پانی میں اینٹی فریز ڈالنا لازمی ہوتا ہے ورنہ ریڈی ایٹر کی نالیاں پھٹ جانے کاخطرہ موجود ہوتا ہے۔

لیکن دوسری طرف پانی کے اس غیر معمولی رویے کی وجہ سے دنیا بھر میں ٹھنڈے علاقوں کی جھیلیں اور سمندر سارے کے سارے نہیں جمتے۔ بلکہ صرف ان کی اوپری سطح ہی برف میں تبدیل ہوتی ہے جبکہ برف کی تہہ کے نیچے ساری جھیل یا سمندر مائع حالت میں موجود رہتا ہے۔ ایسا کیسے ہوتا ہے؟

ہوتا کچھ یوں ہے۔ جب سردی پڑنا شروع ہوتی تو جھیل یا سمندر کا اوپری پانی ٹھنڈا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی اس کا درجہ حرارت کم ہوتا ہے یہ بھاری ہوجاتا ہے اور نیچے کی طرف بیٹھ جاتا ہے جبکہ نیچے زیادہ درجہ حرارت کا گرم پانی اوپر آجاتا ہے۔ پھر سے یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔ بار بار یہ عمل ہوتا ہے حتی کہ پوری جھیل یا سمند کا پانی چار ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔

اب جب اوپری حصے کا درجہ حرارت مزید کم ہوتا ہے تو وہ بھاری ہونے کی بجائے ہلکا ہوجاتا ہے۔ لہذا اب یہ نیچے کی طرف نہیں جاسکتا۔ یہاں تک کہ یہ ٹھنڈا ہوتا ہوتا جم کر برف کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ گویا جب کسی بھی جھیل یا سمندر کے اوپر برف کی دبیز تہہ جمی ہوتی ہے اس وقت اس کے تہہ کے نیچے سارا پانی چار ڈگری سینٹی گریڈ پر موجود ہوتا ہے۔ چونکہ برف حرارت کی بہت کم یا بری موصل ہے اس لیے نیچے والے چار ڈگری سینٹی گریڈ کے پانی کی حرارت محفوظ کرنے میں یہ برف شیلڈ یا لحاف کا کردار ادا کرتی ہے۔

یوں ساری سردیاں چاہے فضا کا درجہ حرارت منفی بیس درجہ بھی ہوجائے نیچے پانی چار ڈگری سینٹی گریڈ پر ہی برقرار رہتا ہے۔ اس عمل کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سردیوں میں ساری آبی حیات بشمول مچھلیاں جھینگے اور سمندری پودے سب کے سب فنا ہونے سے بچ جاتے ہیں ۔ سوچیں اگر سردیوں میں سارے سمندر اور ساری جھیلیں مکمل طور پر جم جاتیں تو لاکھوں ٹن کی کروڑوں مچھلیاں اور دوسری آبی حیات بھی ساتھ ہی جم کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی۔ تو خالقِ کائنات کی ایک حکمت " انامولیس بی ہیوئیر آو واٹر" نے ساری حیات آب کو زندگی تفویض کردی۔۔

تو جب اگلی بار آپ فریزر سے برف نکالتے ہوئے اس پر ابھری ہوئی چوٹی دیکھیں تو کہیے گا

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ