1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. رحمت عزیز خان/
  4. عنبر شمیم کی اردو شاعری

عنبر شمیم کی اردو شاعری

عنبر شمیم اردو دنیا کی ایک کثیر الجہتی شخصیت ہیں۔ اپنی خوبصورت شاعری کے ذریعے وہ انسانی جذبات، معاشرتی حرکیات اور وجودی تصورات کی گہرائیوں میں جھانکتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس کی شاعری زندگی کی پیچیدگیوں اور نشیب و فراز کو خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔

11 جنوری 1959 کو پیل خانہ، مغربی بنگال میں پیدا ہونے والے عنبر شمیم کے شاعرانہ سفر کا آغاز 1973 میں ہوا۔ ان کے شاعرانہ اثرات، خاص طور پر احسن شفیق اور حامی گورکھپوری جیسے استادوں سے شروع ہوا، جنھوں نے ان کے ادبی اسلوب کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اردو میں کہے گئے ان کے خوبصورت اشعار ان کی شاعری اور ان کی پرورش اور تجربات کی عکاسی کرتی ہیں۔

عنبر شمیم کی شاعری بے شمار موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ وقت کی قلیل فطرت سے لے کر انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں تک آپ نے اشعار کی ایک بہترین سیریز تیار کی ہے۔ ان کی شاعری اکثر وجودی جدوجہد، خوشی کی تبدیلی، اور معنی کی مستقل جستجو پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ خوبصورت استعاروں اور فکر انگیز امیجری کے ذریعے شاعر قارئین کو انسانی حالت پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہوا نظر آتا ہے۔

آپ کی شاعری گہری سادگی کی خصوصیت کے حامل بہترین شاعری ہے۔ عنبر شمیم اپنی شاعری میں گہری سچائیوں کو بیان کرنے کے لیے قابل رسائی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ شاعر کی مہارت الفاظ کے بہترین انتخاب میں ہے، جہاں ہر شعر میں کوئی نہ کوئی سبق موجود ہوتا ہے۔ اپنی غزلوں اور نظموں کے ذریعے وہ ایسی حکایتیں بُنتے ہیں جو خواہش سے مایوسی، اُمید سے استعفیٰ تک جذبات کی ایک لہر کو جنم دیتے ہیں۔

شمیم کی ادبی خدمات کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر پہچان ملی ہے۔ محمد مرزا ایوارڈ (2018) اور راحت اندوری میموریل ایوارڈ (2020) جیسے ایوارڈز ادبی میدان میں ان کے لازوال اثر و رسوخ کی گواہی دیتے ہیں۔ مزید برآں، ادبی جرائد اور رسائل میں ان کے ادارتی کردار اردو ادب میں ابھرتی ہوئی آوازوں کی پرورش کے لیے ان کے عزم کو واضح کرتے ہیں۔

شمیم کی شاعری محض لسانی اظہار سے بالاتر ہے۔ یہ معاشرے کے اجتماعی شعور کے لیے آئینہ کا کام کرتی ہے۔ وجودی مخمصوں اور معاشرتی ناانصافیوں کی اس کی کھوج قارئین کو غیر آرام دہ سچائیوں کا مقابلہ کرنے اور انسانی تجربے کی باریکیوں کو اپنانے کی دعوت دیتی ہے۔ اپنے کام کے ذریعے وہ روایتی اصولوں کو چیلنج کرتا ہے اور شناخت، تعلق، اور انسانی مصائب کے مسائل پر تنقیدی گفتگو کرنے پر قارئین کو اکساتا ہے۔

اردو ادب کے منظر نامے میں عنبر شمیم کی آواز خود شناسی اور روشن خیالی کی روشنی کے طور پر گونجتی ہے۔ اہلِ ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے عنبر شمیم کی شاعری سے انتخاب پیش خدمت ہے۔

غزل

شام سے پہلے بہ اندازِ دگر شام کے بعد
بن گیا عزمِ سفر دیدۂ تر شام کے بعد

پوچھ مت نشۂ ہستی کا اثر شام کے بعد
"مجھ کو رہتی ہی نہیں اپنی خبر شام کے بعد"

یہ تعلق بھی عجب شے ہے، جہاں بھی میں رہوں
مجھ کو دیتا ہے صدائیں مرا گھر شام کے بعد

دن تو ہم کاٹ لیا کرتے ہیں جیسے تیسے
رات کٹتی نہیں اے دوست مگر شام کے بعد

خوش لباسی پہ ٹکی رہتی ہیں نظریں سب کی
دیکھتا کوئی نہیں دیدۂ تر شام کے بعد

شام سے پہلے عجب دھن میں رہا کرتا ہوں
رسنے لگتا ہے ہر اک زخمِ جگر شام کے بعد

زندگی دشتِ صعوبت میں رہے جتنی دیر
تھکنے دیتا نہیں زلفوں کا سفر شام کے بعد

صبح سے رات کا رشتہ ہے تو بس اتنا ہے
بے گھری پھیل کے بن جاتی ہے گھر شام کے بعد

کلفتیں کیسی، سزا کیسی کہ بن جاتی ہے
ہرگزرگاہ تری راہ گزر شام کے بعد

سبزۂ یاد ابھرتے ہی چلے آتے ہیں
جگمگا اٹھتا ہے اس دل کا کھنڈر شام کے بعد

خانۂ دل میں اجالا ہے انھیں سے عنبرؔ
جھلملاتے ہیں جو پلکوں پہ گہر شام کے بعد

غزل

تصنع، مصلحت کوشی، اداکاری چمکتی ہے
جہانِ کم نظر میں جنس بازاری چمکتی ہے

نجانے کس مقامِ بے اماں تک آگئے ہیں ہم
زمیں تا عرش چنگاری ہی چنگاری چمکتی ہے

یہ تمغے، یہ لباسِ فاخرہ تم کو مبارک ہو
غریبِ شہر کے ماتھے پہ خود داری چمکتی ہے

ہوا کے رخ پہ شمعِ دل جلانا میری فطرت ہے
کہ مشکل وقت میں ہی میری جی داری چمکتی ہے

کھرا کھوٹا بتانے والے اب مشکل سے ملتے ہیں
زمانہ مصلحت کا ہے، طرف داری چمکتی ہے

بنایا جب سے ہم نے آشیانہ شاخِ نازک پر
کبھی بجلی لپکتی ہے کبھی آری چمکتی ہے

غزل

دھوپ کا سلسلہ ہے کیا کیجیے
شدتِ غم سوا ہے کیا کیجیے

زندگی جھیلنا نہیں آساں
یہ تو دشتِ بلا ہے کیا کیجیے

چند تنکے ہیں آشیانے میں
اور پاگل ہو اہے کیا کیجیے

رویئے مت کہ یہ تو ہونا تھا
حادثہ حادثہ ہے کیا کیجیے

وہ کتابوں سے آشنا ہے مگر
خود سے ناآشنا ہے کیا کیجیے

کوئی بھی شکل اب نہیں سالم
آئینہ بولتا ہے کیا کیجیے

شاعری میں نیا نہیں کچھ بھی
صرف لہجہ نیا ہے کیا کیجیے

غزل

بات عنبر وہی ہے ڈھب کی بات
کیجیے اپنی، ہووے سب کی بات

بات میں بات ہو تو قیمت ہے
خامشی ورنہ ہے غضب کی بات

فاصلے ہیں نہ رابطے باقی
عہدِ نو ہے، گئی وہ تب کی بات

روشنی کھا گئی کتابوں کو
بے ادب ہوگئی ادب کی بات

آدمی آدمی سے برگشتہ
اور لب پر ہے سب کے رب کی بات

ہم سمندر پرست لوگوں میں
کون کرتا ہے تشنہ لب کی بات

بادشاہی کہاں سمجھتی ہے
فاقہ مستی میں بھی طرب کی بات

اہلیت ہی سے مرتبہ بھی ہے
کیجیے کیوں حسب نسب کی بات

اتنا آساں نہ تھا سخن عنبرؔ
تب کی بات اور، یہ ہے اب کی بات

غزل

خونِ ناحق، صلیب، سناٹا
چپ مسلّط، مہیب سناٹا

شور و شر، ہاؤہ، و بہر جانب
بلبلاتا غریب سناٹا

قتل ہوتی سماعتوں کے گرد
پھیل جا اے رقیب سناٹا

آدمی کا ہجوم چاروں اور
پھر بھی کتنا قریب سناٹا

بھیڑ میں بھی شناخت رکھتا ہے
کس قدر ہے عجیب سناٹا

تو نے دی ہے زبان لفظوں کو
السلام اے ادیب سناٹا

بے زبانی زبان بن جاتی
اور ہوتا نقیب سناٹا

غزل

تہہ بہ تہہ گرد ہو تو دھوئیں کیا
آئینے سے لپٹ کے روئیں کیا

خاک سے اُگ رہے ہیں انگارے
پھول کھلتا نہیں ہے، بوئیں کیا

بجھ گیا آفتاب آنکھوں میں
اب نہ آئے گی صبح، روئیں کیا

آج بھی اس عظیم دنیا میں
بے مکانی کا بوجھ ڈھوئیں کیا

گرمیِ حشر کم نہیں ہوتی
پانیوں سے بدن بھگوئیں کیا

ٹوٹ جانے کے ڈر سے خوابوں کے
نیند آتی نہیں ہے، سوئیں کیا

اپنی فطرت کو طاق پر رکھ دیں
بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں کیا

ایک ہارے ہوئے جواری سا
کچھ بچا ہی نہیں ہے، کھوئیں کیا

صاف دِکھتے نہیں ہیں چہرے اب
آئینوں سے لپٹ کے روئیں کیا

وقت ناسور بنتا جاتا ہے
کیا کریں، آنسوؤں سے دھویں کیا

کیوں زمانہ ہے اس قدر خاموش
جسم میں کوئی پِن چبھوئیں کیا

غزل

کیا بتاؤں جو حال ہے تاحال
برگِ خستہ مثال ہے تاحال

صبح اترے گی جھونپڑی میں بھی
یہ فقط اک خیال ہے تاحال

جو نہ ہو کر ہے سب جگہ موجود
بس وہی لازوال ہے تاحال

موت بے رحم ہے مگر آساں
زندگی اک سوال ہے تاحال

خوب سے خوب تر کی کوشش میں
قرض میں بال بال ہے تاحال

ہم جوابوں میں ڈھونڈتے ہیں جسے
وہ سراپا سوال ہے تاحال

مٹ رہی ہیں ثقافتیں پیہم
لمحہ لمحہ زوال ہے تاحال

یہ سمجھیے کہ جان باقی ہے
خون میں جو ابال ہے تاحال

خواب جیسے دیا ہو مفلس کا
سیم و زر کی اچھال ہے تاحال

ایک مفلس کی زندگی کیا ہے
جال ہے صرف جال ہے تاحال

نو بہ نو غم کی یورشیں عنبرؔ
ایک طرفہ کمال ہے تاحال