1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اجمل کھوکھر/
  4. پراکسی وارز 1

پراکسی وارز 1

دوسری عالمی جنگ کے دوران عالمی افق پر ابھر کر آنے والی دنیا کی سپر پاور نے اپنے سفارتی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے اپنے اثر و رسوخ اور اتحاد کو فروغ دینے کی جدوجہد شروع کردی تاکہ وہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ قدرتی وسائل کافائدہ اٹھاسکیں۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ سابقہ دونوں عظیم جنگوں کے تباہ کن نتائج کو بھگتنے کے بعدانہوں نے اپنی جنگی حکمت عملی کو تو ضرور تبدیل کردیا لیکن ایک دوسرے پر اپنی بالادستی کی روش اور استعماری ذہنیت کو نہیں بدلا۔ امریکہ نے اپنی اسی ذہنیت اور حکمت عملی کے تحت اگر اپنے دوست ممالک کو جنگی ٹکنالوجی اور فوجی امدادفراہم کی تو کہیں پر اپنے فوجی اڈے اور چھائونیاں بھی قائم کیں۔ اتفاق سے روس نے بھی اپنے استعماری عزائم کی تکمیل کے لئے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ پرویز مشرف نے اپنی کتاب ‘In Line Of Fire’ میں لکھا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو سمجھایا کہ اگر افغانستان پر روس کی بالادستی قائم ہوجاتی ہے تو نہ صرف ایشیا میں اس کے واحد اتحادی پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ روس ہندوستان کے ساتھ مل کر ایران، عراق سعودی عرب سے لے کر شام اور مصر پر اپنی بالادستی قائم کرکے خود کو ایک زبردست طاقت میں تبدیل کرلے گا اور پھر امریکہ سپر پاور بھی رہے گا یا نہیں اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ امریکہ نے وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرلیا اور پھر دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں نے جنگوں کی تاریخ میں جد ید روایت کی شروعات کردی جسے ہم Proxy War یعنی سرد جنگ کے نام سے جانتے ہیں۔ یعنی جنگ میں دشمن کی موجودگی کا احساس تو کیا جاسکتا ہے مگر اس کا چہرہ واضح نہیں ہوتا۔ اس جنگ میں روس اپنے انجام کوتو پہنچ گیا مگر خود امریکہ نے افغانستان کے علاوہ ویتنام، لیبیا اور صومالیہ وغیرہ میں مداخلت کرکے اپنے آپ کو بری طرح زخمی کرلیا یا یوں کہہ لیجئے کہ سپر پاور وں کے سپر پاور نے حالات کو ایسے بدلا کہ امریکہ بھی اس کی دلدل میں قید ہوتا چلا گیا اور بعد کے حالات میں طالبان، القاعدہ، اسامہ بن لادن، آیت اللہ خمینی اور صدام حسین کی دہشت سے وہ آزاد نہیں ہو سکا۔ پھر بھی دنیا کے دیگر چھوٹے ملکوں کے حکمرانوں کی عافیت اسی میں رہی کہ وہ ان دونوں تھکے ہارے ہوئے شکاریوں کے خیموں میں بٹے رہیں۔ خاص طور سے عرب کے موجودہ حکمراں اس لعنت سے پاک نہیں ہوسکتے تھے تو اس لئے کہ جہاں یہ لوگ شیعہ سنی جیسے شدید مسلکی اختلاف میں مبتلا رہے ہیں اکثر ان کے سروں پر عوامی بغاوت کا بھی خطرہ منڈلا تارہا ہے۔ 2010 میں یہ خطرہ حقیقت میں تبدیل ہوگیا۔ ممکن تھا کہ تیونس سے اٹھنے والی عرب بہار کی سونامی میں سارے عرب کے حکمرانوں کا صفایا ہو جاتا۔ مگر شام اور مصر میں ایران اور سعودی عرب نے روس اور اسرائیل کی مدد لے کر )امریکہ اور اسرائیل کی نہیں جیسا کہ عام خیال ہے( وہی کردارادا کیا جو افغانستان میں پاکستان نے امریکہ کی مددسے حالات کا رخ بدل دیا۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ کے پرنسپل سکریٹری محمد محمدی کلبا بکانی شیراز شہر کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف بھی کیا ہے کہ اگر تہران شام کی مدد نہ کرتا تو ہم عراق سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے اور ایران کے لئے خطرہ پیدا ہو جاتا۔ یوکرین اور خلیج میں روس اور امریکہ کی مداخلت کے تناظر میں خود روس کے سابق صدر گوربا چوف نے بھی جرمنی کے ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کی صورتحال میں مبتلاہے۔ چونکہ سرد جنگ میں جھوٹ اور منافقت کے ہتھیار کا بھی اہم کردار ہوتا ہے اس لئے ایرانی عہدیدار اور ان کے معاون صحافی حضرات ایران اور شام میں روس کی مداخلت کو نظر انداز کرجاتے ہیں اور شام میں اپنی مداخلت کے اخلاقی جواز کو درست ثابت کرنے کے لئے مسلسل یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ شام اور عراق میں امریکہ اور اسرائیل خفیہ طریقے سے دہشت گردتنظیم دولت اسلامیہ کی مدد کررہے ہیں۔ جبکہ 2010 کے عرب بہار کو ناکام بنانے میں ایران نے ظالم اسد رجیم کی مدد کرکے جو گھنائونا کردار ادا کیا ہے اس کا اپنا گناہ بھی امریکہ اور اسرائیل سے کم نہیں ہے۔ مگر وہ اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ہمیشہ امریکہ اور اسرائیل کو ہر معاملے میں گناہ گار ٹھہرا کر عالم اسلام کو گمراہ کرتے رہتا ہے۔ خلیج کے اکثر اسلام پسند تبصرہ نگار ایران کی اسی منافقانہ روش کی وجہ سے شک کرتے ہیں کہ ایران خود خفیہ طریقے سے سی آئی اے اور موساد کے رابطے میں ہے اور اس نے پورے مشرق وسطیٰ پراپنی خلافت قائم کرنے کے لئے دولت اسلامیہ کو بھی کھڑا کیا ہے۔ ہمیں اس مفروضے پر اس لئے یقین نہیں ہے کیوں کہ اس نظریے کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے نہ تو ایران خود سپر پاور ہے اور نہ ہی وہ بیک وقت روس اور امریکہ دونوں سے تعلقات قائم کرکے اپنے وجود کو خطرے میں ڈالنے کا خطرہ مول لے سکتاہے۔ اس کے برعکس زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ دنیا کے منظر نامے اور سپر پاور کے اتحادی ڈھانچے میں زبردست تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ یوکرین میں روس کا جارحانہ رویہ اور جزیر ۃالعرب میں امریکہ کی خاص دلچسپی مستقبل کی دنیا کو اپنے اپنے رنگ میں ڈھالنے کی ہی ایک ناکام کوشش ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کو سپر پاور بنانے میں پاکستان اور اسرائیل نے اہم کردار ادا کیا تھا اب یہ دونوں ہی ممالک ایک تیسرے ابھرتے ہوئے سپر پاور ملک چین کے حق میں اپنی وفاداری بدلنے کے لئے موقع کی تلاش میں ہیں۔ چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی اور تعلقات سے پوری دنیا واقف ہے جیسا کہ چین نے اپنے روشن مستقبل کی تعمیر کے لئے پاکستان میں ایک وسیع سفارتخانے کی تعمیر کا آغاز بھی کردیا ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع غلطی یا جان بوجھ کر یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ امریکہ اب اس کے لئے قابل اعتماد ساتھی نہیں رہا اور خود پاکستانی حکومت امریکہ کے حریف ملک روس کے ساتھ بھی دفاعی سودا کرکے امریکہ کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے وہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل کے سیاستدانوں کے درمیان تلخ بیانی کی خبروں کو یوں ہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات نظر بھی آرہی ہے کہ یورپ کے بیشتر ممالک نے اسرائیل کی مرضی کے بر خلاف فلسطین کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دینے کی مہم شروع کرکے اسرائیل کو ایک طرح سے سرد جنگ کی کیفیت میں میں مبتلا کردیا ہے۔ اسرائیل کو اپنے قیام کے لئے یورپ اور امریکہ سے جو مدد لینی تھی وہ لے چکا اب اسے اپنی سلامتی اور بقا کے لئے آہنی سلاخوں کی ضرورت ہے۔ ایک عرصہ اور زمانے سے یورپ اور امریکہ کے حکمراں اسرائیل کویہ تحفظ مہیا کرا بھی رہے ہیں لیکن جدید نسل اسرائیل کے لئے اپنا خون بہانے سے قاصر ہے۔ اب اسرائیل دنیا کی اس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال سے نبردآزمائی کے لئے اپنا قبلہ کی سمت درست کر رہا ہے کیونکہ امریکہ اور یورپ کو تو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہیں۔ (جاری ہے)