1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فیصل فاروق/
  4. زرعی قانون، کسان تحریک اور حکومت

زرعی قانون، کسان تحریک اور حکومت

حالیہ منظور شدہ نئے زرعی قوانین کے خلاف دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کی ہڑتال گذشتہ چار ہفتوں سے مسلسل جاری ہے۔ جس میں کسانوں کی تنظیموں اور حکومت کے مابین مذاکرات کے کئی دور چلنے کے بعد بھی کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔ اور اب یہ معاملہ مفاد عامہ کی کچھ درخواستوں کی مدد سے عدالت عظمیٰ تک پہنچا ہے۔ دراصل اِس معاملہ میں نہ تو کسانوں کی طرف سے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے کوئی عدالت عظمیٰ گیا ہے بلکہ دو وکلاء کے علاوہ ایک عام آدمی کی درخواست پر عدالت سماعت کر رہی ہے۔ بی جے پی کسان مورچہ کے رہنما نریش سیروہی کا کہنا ہے کہ اگر اِس معاملہ میں کسانوں کے ساتھ پہلے ہی بات چیت ہو جاتی تو شاید عدالت عظمیٰ کو دخل نہ دینا پڑتا۔

قابلِ غور ہے کہ مظاہرہ گاہوں پر سردی میں بھی کسانوں کا جوش قائم ہے۔ سِنگھو بارڈر اور ٹِکری بارڈر دہلی، ہریانہ کی سرحد ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں کسان مظاہرین یکجا ہیں۔ ویسے تو ملک کے سبھی حصوں سے کسان اِس مظاہرہ میں شرکت کر رہے ہیں لیکن اِن میں اکثریت پنجاب کے کسانوں کی ہے۔ لمبی داڑھیوں اور رنگ برنگی پگڑیوں سے سِکھوں کی تعداد نمایاں نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروپیگنڈا مشینری نے اِس مظاہرہ کو خالصتانی تحریک سے جوڑ دیا ہے۔ بہرحال اِسے روکنے کی کتنی ہی کوششوں کے باوجود یہ مظاہرے مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔

حکومت کہتی ہے کسانوں کو اِن اصلاحات سے خوش ہونا چاہئے تھا لیکن باریکی سے قوانین کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ نئے زرعی قوانین کسانوں کو نقصان پہنچائیں گے۔ خاص کر چھوٹے اور اوسط درجہ کے کسانوں کو زیادہ نقصان ہوگا۔ موٹے طور پر دیکھنے میں یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ اِن قوانین کی عبارت کے درمیان کیا کیا پوشیدہ ہے۔ کسانوں کیلئے اختیارات کھل جائیں یہ اچھی بات ہے لیکن مارکیٹ کھلنے کے ساتھ خطرات کیلئے بھی راستے کھل جاتے ہیں۔ اِن خطرات سے بچنے کا کیا انتظام ہے، اِس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ظاہر ہے جس کا اثر خاص کر غریب کسانوں پر پڑے گا۔ یہ قانون کسانوں کی رضامندی کے بغیر بنایا گیا ہے۔

کسانوں کا سب سے بڑا اختلاف اقل ترین قیمت یعنی منیمم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) کے ختم ہو جانے سے ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ایم ایس پی ختم نہیں ہوگی مگر کارپوریٹ کمپنیوں کو مارکیٹ میں اُترنے اور معاہدہ جاتی زراعت کی جو رعایت دی جا رہی ہے اِس کا نتیجہ تو یہی نکلے گا کہ بڑے کسان بڑی کمپنیوں سے معاہدے کر کے خوش رہیں گے اور چھوٹے کسان منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ نئے قانون کی مدد سے کسانوں کو مزید اختیارات ملیں گے اور اُن کو فصل کی قیمت بھی اچھی ملے گی۔

حکومت کہتی ہے کہ زرعی منڈیوں، پروسیسنگ اور بنیادی ڈھانچے میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جبکہ کسانوں کو لگتا ہے کہ نئے قانون سے اُن کا موجودہ تحفظ بھی ختم ہوجائے گا۔ کسان ایسا مانتے ہیں کہ اُنہیں جو چاہئے وہ نئے قانون میں نہیں ہے۔ کسان تنظیموں نے پہلا قانون کی منسوخی کا مطالبہ کیا ہے اور دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ایم ایس پی پر خرید کی ضمانت دی جائے۔ وہ خرید پھر چاہے حکومت کرے یا کوئی نجی ایجنسی یا نجی تاجر یا کوئی اور۔ بہت ضروری ہے کہ ضد چھوڑ کر حکومت کسانوں کے مطالبے پر غور کرے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو بہت ممکن ہے آنے والے دنوں میں کسانوں کی تحریک تیز تر ہوگی۔

سبز کھیتوں کی جگہ پکّی سڑکیں ہوں گی

دہقاں کی مصیبت کو سمجھا نہ گیا تو

فیصل فاروق

مصنف ممبئی میں رہائش پذیر کالم نِگار اور صحافی ہیں۔