1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فیصل فاروق/
  4. کانگریس جنوبی ہند میں مضبوط ہونا چاہتی ہے

کانگریس جنوبی ہند میں مضبوط ہونا چاہتی ہے

کانگریس صدر راہل گاندھی اتر پردیش میں اپنی روایتی سیٹ امیٹھی کے ساتھ کیرالا کی وائناڈ لوک سبھا سیٹ سے بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ کانگریس نے غوروفکر کے بعد سوچ سمجھ کر اُنہیں جنوبی ہندوستان کے میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیکھا جائے تو اِس فیصلہ کے پیچھے کانگریس کی سوچ راہل کی قومی سطح پر مقبولیت بڑھانے کی ہے۔ لیکن راہل کی امیدواری نے جنوب میں کانگریس بمقابلہ بائیں بازو کی جنگ اور تیز کردی ہے۔
کانگریس پارٹی کے مطابق راہل گاندھی کے وائناڈ سے انتخاب لڑنے کا مقصد جنوبی ریاستوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ کانگریس اُن کی ثقافت، زبان اور روایات کا احترام کرتی ہے اور راہل گاندھی شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان ایک پُل کا کام کریں گے۔ وہیں بی جے پی کا کہنا ہے کہ امیٹھی میں جہاز ڈوبتا دیکھ کپتان بھاگ نکلا۔ اِسمرتی ایرانی کے سامنے راہل غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں اِس لئے اُنہوں نے وائناڈ سے بھی میدان میں اُترنے کا فیصلہ کیا۔
ایسا کہتے ہوئے بی جے پی کے چھوٹے بڑے سبھی لیڈر جان بوجھ کر فراموش کر رہے ہیں کہ راہل گاندھی کوئی پہلے سیاستداں نہیں ہیں جو ایک ساتھ دو سیٹوں پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کی وڈودرا اور اترپردیش کی وارانسی سیٹ سے انتخاب لڑ چکے ہیں۔ تب مودی دونوں سیٹوں سے جیت گئے تھے۔ بعد میں اُنہوں نے وڈودرا سیٹ سے استعفیٰ دے دیا اور ابھی لوک سبھا میں وارانسی سے نمائندگی کرتے ہیں۔
اٹل بہاری واجپئی نے تو اپنا پہلا ہی الیکشن ۱۹۵۲ء میں اترپردیش کی دو سیٹوں متھرا اور لکھنؤ سے لڑا تھا اور دونوں سیٹوں پر اُن کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی۔ پھر اُنہوں نے ۱۹۵۷ء میں اتر پردیش کے تین حلقوں لکھنؤ، متھرا اور بلرام پور سے مقابلہ کیا تھا۔ بلرام پور سے اٹل جی نے فتح حاصل کی تھی، لکھنؤ میں وہ دوسرے نمبر پر آئے تھے اور متھرا سے اُن کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی۔ ۱۹۹۱ء میں ایک طویل عرصہ کے بعد اٹل بہاری واجپئی نے پھر لکھنؤ اور اِس بار مدھیہ پردیش کی وِدیشا لوک سبھا سیٹ سے بھی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔
تب سماج وادی پارٹی کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ واجپئی شکست کی ڈر سے وِدیشا بھاگے ہیں۔ اُس وقت سیاسی گلیاروں میں بحث تھی کہ سماج وادی پارٹی فلم اداکارہ شبانہ اعظمی کو واجپئی کے خلاف لکھنؤ سے میدان میں اُتار سکتی ہے۔ اُسی سال ۱۹۹۱ء میں بی جے پی کے دوسرے بڑے رہنما لال کرشن اڈوانی نے نئی دہلی کے ساتھ ساتھ گجرات کی گاندھی نگر سیٹ سے بھی مقابلہ کیا تھا۔ نئی دہلی سیٹ پر اُن کا مقابلہ مشہور فلم اداکار راجیش کھنہ سے تھا۔ راجیش کھنہ کانگریس کی ٹکٹ پر سیاسی میدان میں تھے۔
اُس وقت اِن دو قدآور لیڈران پر بالکل اُسی طرح کے سوال اُٹھے تھے جیسے آج راہل گاندھی پر اُٹھ رہے ہیں۔ تب واجپئی اور اڈوانی دونوں نے ہی دونوں سیٹوں سے جیت حاصل کر کے اپوزیشن کو منہ توڑ جواب دیا تھا۔ راہل کے علاوہ اِس سے پہلے کانگریس پارٹی کی سابق صدر سونیا گاندھی بھی رائے بریلی اور کرناٹک کے بیلاری لوک سبھا حلقہ سے انتخاب لڑ کر فتح حاصل کر چکی ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے انتخابات میں اندرا گاندھی بھی دو سیٹوں سے لڑی تھیں، اُن میں سے ایک سیٹ آندھراپردیش کے میڈک میں فتح حاصل کی تھی۔
کانگریس کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنا غلبہ پورے ملک پر قائم کرے اور مقابلہ صرف بی جے پی کے ساتھ نہیں بلکہ ہر اُس پارٹی کے خلاف ہے جو کانگریس کی مخالفت کر رہی ہے۔ کانگریس راہل کی قومی سطح پر مقبول لیڈر کی شبیہ پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جس سے بی جے پی پر بھی نریندر مودی کو جنوب کی کسی سیٹ سے اُتارنے کا دباؤ بڑھے گا۔ حالانکہ بی جے پی ایسا نہیں کرے گی کیونکہ اِس سے جنوبی ہندوستان انتخاب کا مرکز بن جائے گا اِسی لئے بی جے پی ایسا نہیں چاہے گی۔
واضح رہے کہ کیرالا کی وائناڈ سیٹ پر کانگریس کا قبضہ رہا ہے۔ کیرالا پردیش کانگریس کمیٹی کے ورکنگ صدر رہ چکے ایم آئی شاہنواز دو مرتبہ اِس سیٹ سے جیت چکے ہیں اور یہاں بی جے پی ریس میں بھی نہیں رہی ہے۔ نومبر ۲۰۱۸ء میں لیور کی بیماری سے شاہنواز کی موت ہو گئی۔ یہ سیٹ کنور، ملاپورم اور وائناڈ کے پارلیمانی حلقوں کو ملا کر بنی ہے۔ وائناڈ سیٹ کا کچھ حصہ تمل ناڈو اور کرناٹک کی سرحد سے لگا ہوا ہے۔ وائناڈ لوک سبھا علاقے میں ۸۰/سے زائد گاؤں ہیں اور صرف چار شہر ہیں۔
بی جے پی قومی سلامتی کو موضوع بناکر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہی ہے (حالانکہ سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے قومی مفاد کو کہیں پس منظر میں ڈھکیل دیا گیا ہے) اور کسی جنوبی ریاست کے مقابلے میں یہ ایشو شمالی ریاستوں میں اُس کیلئے زیادہ مفید ثابت ہو گا۔ نان ایشوز کو ایشو بنایا گیا ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، نوکریوں، رافیل جنگی جہازوں کا سودہ، بدعنوانی کا خاتمہ اور کسانوں کے مسائل منظر سے ہٹ گئے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ قومی سلامتی کا موضوع دیگر تمام مسائل کو نگل گیا ہے۔
بہرحال راہل یہاں بی جے پی نہیں، بائیں بازو کے خلاف لڑیں گے۔ ایسی ریاست سے انتخاب لڑنے کی کیا ضرورت تھی جہاں تقریباً سبھی سیٹوں پر سیکولر جماعتوں کے حق میں ووٹ ڈالنے کے امکانات موجود ہیں؟ دراصل راہل گاندھی مسلسل تین بار سے امیٹھی لوک سبھا سیٹ سے ایم پی ہیں۔ خبروں کی مانیں تو امیٹھی سے اِسمرتی ایرانی راہل گاندھی کو ٹکر دے رہی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کانگریس وائناڈ سیٹ کے ذریعہ کیرالا، تمل ناڈو اور کرناٹک میں پارٹی کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔

فیصل فاروق

مصنف ممبئی میں رہائش پذیر کالم نِگار اور صحافی ہیں۔