1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فیصل فاروق/
  4. کیفی نامہ: کیفی کے فن اور عہد کا جشن

کیفی نامہ: کیفی کے فن اور عہد کا جشن

ریلاینس انڈسٹری اور مِجواں سوسائٹی کے اشتراک سے لِٹریچر لائیو کے زیر اہتمام معروف ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی کے صد سالہ یوم پیدائش کے موقع پر ممبئی میں ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اِس موقع پر معروف اداکارہ شبانہ اعظمی کی طرف سے تیار کی گئی ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی۔ فلم کے ذریعہ شبانہ نے اپنے والد اور مشہور فلمی نغمہ نگار کیفی اعظمی کی زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ سُمنترا گھوشال فلم کے ڈائریکٹر ہیں۔ ۰۹/منٹ کی اِس فلم کو معلوماتی بنانے میں مصنفہ رخشندہ جلیل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
"کیفی نامہ: کیفی کے فن اور عہد کا جشن" میں کیفی اعظمی کی عوامی شاعری، فلمی شاعری، کمیونسٹ پارٹی سے اُن کی والہانہ وابستگی اور زندہ رہنے کی جدوجہد کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ فلم بیاں کرتی ہے کہ کس طرح کیفی اعظمی نے اپنی شاعری کے ذریعہ ظلم و جبر اور نا انصافی کی مخالفت کی۔ اِس فلم میں کیفی کی کئی مقبول غزلیں اور نظمیں یکجا کی گئی ہیں۔ عورت کی شخصیت پر اور بابری مسجد کے انہدام پر لکھی گئی نظم کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ کیفی اعظمی، اُن کی اہلیہ شوکت اعظمی، محمد مہدی، علی سردار جعفری وغیرہ کے انٹرویوز کی مدد سے اِس فلم کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ کیفی اعظمی کے صد سالہ یوم پیدائش کا جشن پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے اور گزشتہ روز ممبئی میں منعقدہ مذکورہ تقریب بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اپریل کی شروعات میں اِس دستاویزی فلم کو لندن میں برطانیہ کے ایشیائی فلم فیسٹیول میں ورلڈ پریمیئر اسکریننگ کے ساتھ لانچ کیا گیا تھا۔ شبانہ اعظمی نے کہا، یہ فلم محض کسی شخص کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اُس وقت کی، اُس زمانہ کی منظر کشی کرتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ تقسیم کے بعد اردو کو اسلام کے ساتھ منسلک کرنے کی جان بوجھ کر کوشش کی گئی تھی۔ اردو شمالی ہندوستان کی زبان تھی۔ بہت سے غیر مسلم آج بھی نستعلیق اسکرپٹ میں لکھتے ہیں۔
ویسے تو کیفی اعظمی نے متعدد فلموں کیلئے لکھا ہے۔ لیکن اُن کی ایک فلم ہیر رانجھا بیحد مقبول ہوئی۔ جس نے کیفی اعظمی کی شاعری کا لوہا دنیا کو منوا دیا۔ اُس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ کیفی اعظمی نے ہیر رانجھا کی عشق کی داستان کو شاعری میں اِس طرح پیش کیا کہ یہ فلم اپنے آپ میں شعری مجموعہ بن گئی۔ اُس فلم کے تعلق سے ڈاکیومینٹری میں ذکر کرتے ہوئے کیفی کے صاحبزادے بابا اعظمی نے بتایا کہ ہیر رانجھا کی ہندوستانی سنیما میں اپنی ایک انمٹ پہچان ہے۔ اُس جیسی دوسری فلم اب تک کوئی نہیں بنا سکا ہے۔ یہ کام صرف کیفی ہی کر سکتے تھے۔
اسکریننگ کے اختتام پر زوردار تالیوں کی گونج کے درمیان ناظرین کھڑے ہوئے اور شبانہ کو مبارکباد دی۔ کیفی کی زندگی پر بنائی گئی دستاویزی فلم کی اسکریننگ کے بعد مصنف انل دھارکر اور ہدایت کار سُمنترا گھوشال سے گفتگو کے دوران فلم ساز شبانہ اعظمی نے ناظرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، چونکہ شاعری کے ماحول میں میری پرورش ہوئی، میرے والد شاعر تھے، میرے خسر شاعر تھے اور میرے شوہر بھی شاعر ہیں۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا مَیں بھی شاعری کرتی ہوں؟ اور مَیں لوگوں کو کہتی ہوں کہ مَیں صرف حوصلہ افزائی کرتی ہوں۔
دورانِ گفتگو مزاح سے بھرپور اپنے بچپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے شبانہ نے محفل کو قہقہہ زار بنا دیا۔ شبانہ کہتی ہیں کہ بچپن میں مجھے اپنے ماں باپ کی بیٹی ہونے کی وجہ سے کچھ منفرد تجربے بھی ہوئے۔ جیسے کہ جس انگریزی اسکول میں میرا داخلہ کرایا جا رہا تھا وہاں شرط تھی کہ وہی بچے داخلہ پا سکتے ہیں جن کے ماں باپ کو انگریزی آتی ہو، اور کیونکہ میرے والدین انگریزی نہیں جانتے تھے۔ اِس لئے میرے داخلہ کیلئے مشہور شاعر علی سردار جعفری کی بیوی سلطانہ جعفری میری والدہ بنیں اور ابا کے ایک دوست مُنیش ناراین سکسینہ نے میرے ابا کا رول کیا۔
داخلہ تو مِل گیا مگر کئی برس بعد میری وائس پرنسپل نے مجھے بُلا کے کہا کہ کل رات اُنہوں نے ایک مشاعرے میں میرے ابا کو دیکھا اور وہ اُن ابا سے بالکل مختلف نظر آ رہے تھے جو پیرنٹس ڈے پر اسکول آتے ہیں۔ ایک لمحہ تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی، پھر مَیں نے فوری طور پر کہانی گڑھی کہ گزشتہ دنوں ٹائیفائڈ ہونے کی وجہ سے ابا اچانک اتنے دُبلے ہو گئے ہیں کہ پہچانے ہی نہیں جاتے۔ بیچاری وائس پرنسپل مان گئی اور مَیں بال بال بچ گئی۔ کیفی کی زندہ جاوید یادوں کو جلا بخشتے ہوئے شبانہ اعظمی کے کلماتِ تشکر کے ساتھ تقریب کا اختتام ہوا۔

فیصل فاروق

مصنف ممبئی میں رہائش پذیر کالم نِگار اور صحافی ہیں۔