1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. فکری مغالطوں کے دھندے

فکری مغالطوں کے دھندے

جناب خورشید ندیم ان محدود صاحبان مطالعہ میں سے ہیں جو دلیل سے اختلاف کی عمارت اٹھانے اور اپنی بات کہنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ (جسے کچھ لوگ ہمیشہ تاریخ اسلام سمجھتے کہتے ہیں) کے ساتھ تاریخ اقوام پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ مفسر قرآن مرحوم امین احسن اصلاحیؒ کے مکتب سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاسی موضوعات پر تحریر بُنتے وقت عمران خان کے لتے لیتے ہوئے جناب نوازشریف میں سے مسیحائے وقت تلاش کرکے دکھاتے ہیں۔

پھر بھی توازن گاہے قائم رہتاہے کبھی ہم سے طالب علموں کو شکوہ ہوتاہے کہ "وہ جو کہنا لکھنا چاہ رہے تھے لکھ نہیں پاتے " اس کے باوجود ان کا دم غنیمت ہے کہ وہ اپنی بات سلیقے سے کہتے ہیں اور اختلاف خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ ان کی تازہ تحریر " امتِ مسلمہ اور قومی ریاست " حالیہ پاک ایران تنازع کے پس منظر میں بُنی گئی ہے اس طالب علم کے نزدیک یہ ادھوری تحریر ہی نہیں بلکہ اس میں مغالطوں کا جہان آباد ہے اس میں۔ کچھ تحفظات رہے ہوں گے انہیں اور کچھ مجادلوں اور فتوئوں کی چاند ماری سے بنی فضا جس کی بدولت ان جیسے صاحبان علم راستہ بدل لینے میں قرار سمجھتے ہیں یا پھر "سب خوش رہو" کے اصول پر عمل۔

مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں آزار بنی دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان میں لڑی گئی سوویت امریکہ جنگ سے جا ملتے ہیں جسے ہمارے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے "جہاد " کا نام دیا۔ اس جہاد میں شرکت کے لئے مسلم دنیا بالخصوص عرب ممالک سے جہاز بھر بھر کر مجاہدین لائے گئے۔

جنیوا معاہدہ ہوا تو امریکہ افغانستان کے میدان جنگ کی بغلی گلی سے نکل گیا۔ پاکستان نے سی آئی اے کے ساتھ ہوئے ایک معاہدہ کے تحت عرب جنگجوئوں سمیت کچھ دوسرے مجاہدین کو قبائلی علاقوں میں آباد کرلیا۔

اس آبادکاری کی وجہ یہ تھی کہ مصر، اردن، سعودی عرب اور کویت اپنے جہادیوں کو واپس لینے پر تیار نہیں تھے جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑا۔

ثانیاً یہ کہ افغان جنگ میں مسلمانوں کے چاروں مکاتب فکر کی مسلح تنظیموں نے بھرپور حصہ ڈالا لیکن جنیوا معاہدے کے بعد شروع ہوئی خانہ جنگی میں چاروں مسالک کی مسلح تنظیمیں باہم برسرپیکار ہوئیں۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب پاکستان میں ایک خاص مسلک دینی مدارس میں جہاد افغانستان بطور عقیدہ پڑھایا جانے لگا۔

تاریخ و سیاست اور صحافت کے جو طالب علم افغان جنگ کے ابتدائی عرصہ میں یہ کہہ رہے تھے کہ اس جہاد سازی کا خمیازہ پاکستانی سماج کو بھگتنا پڑے گا ان کی بات توجہ سے سننے کی بجائے انہیں اسلام اور پاکستان کا غدار قرار دیا گیا۔

افغان خانہ جنگی کے برسوں میں ہی پاکستان میں تکفیری سوچ پروان چڑھی بعدازاں جب طالبان ایک قوت کے طور پر افغانستان میں قابض ہوئے تو ان کے ہم خیال پاکستانی مدارس کی چاندی ہوگئی۔ جہاد کے اس تیسرے مرحلہ میں عقائد کی بنا پر تکفیر کے نظریات کو پرچم بنائے سرگرم عمل مدارس اور بعض تنظیموں نے پاکستان کو طالبان کے افغانستان کی طرح کا ملک بنانے کے لئے عہدوپیمان کئے۔

لشکر جھنگوی اس دور میں معرض وجود میں آئی اور طالبان نے اسے افغانستان میں تربیتی کیمپ بناکر دیئے۔ 9/11تک لشکر جھنگوی کے محفوظ ٹھکانے خوست، کنٹر، نورستان اور قندھار کے صوبوں میں موجود تھے۔

9/11سے قبل پاکستان میں جماعت اسلامی، افغان رہنما گلبدین کمت یارکی پشت بان تھی اور حزب المجاہدین و البدر مجاہدین کے نام سے الگ ذیلی تنظیوں کی مالک بھی۔

عرب جنگجوئوں اور جماعت اسلامی کے درمیان رابطے ڈاکٹر عبداللہ عزام مرحوم کی زندگی میں ہی استوار ہوگئے تھے۔ عبداللہ عزام کو افغان جہاد میں شریک عرب جنگجوئوں کے استاد گرامی کا درجہ حاصل تھا۔ اسامہ بن لادن ہوں یا ڈاکٹر ظواہری دونوں ان کے تلامذہ میں سے تھے۔

9/11کے بعد القاعدہ نے اپنے جہاد کو فرقہ وارانہ رنگ دیا۔ افغان طالبان ایک خاص قسم کے فہم دین کے علمبردار تھے اور اب بھی ہیں۔ سو عقائد کی بالادستی کے لئے انفرادی جہاد کی کوشش کا شکار خاص فہم کی فرقہ پرست تنظیموں اور مدارس کے نوخیز نوجوان جوق در جوق اسیر جہاد ہوئے۔

اس لئے آج اگر پاکستان میں کوئی یہ کہے کہ دہشت گردی کے سوتے فرقہ وارانہ عصبیت اور بالادستی کی سوچ سے نہیں پھوٹے تو یہ زمینی حقائق سے انکار ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سارا ملبہ عالمی سامراج اور عربوں کے ساتھ اپنے فوجی حکمران پر نہیں ڈال سکتے۔

سوال یہ ہے کہ عالمی سامراج، عرب، ملوکیت اور فوجی حکمران کو غذا کس نے فراہم کی؟ غذا خاص فہم کے دینی مدارس نے فراہم کی۔ ان مدارس کے "مالکان" کے عزائم کیا تھے اسے سمجھنے کے لئے لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں۔

جہاں تک ایرانی انقلاب کا تعلق ہے تو اس انقلاب کے بعد ایران پر مسلط کی گئی جنگ بنیادی طور پر عرب و فارس کے دیرینہ اختلافات اور بالادستی کے پرانے کھیل کا نیا ایڈیشن تھی۔

عراق کی پشت پر کھڑے عرب بادشاہ بنیادی طور پر عرب قومیت کی بالادستی کو چیلنج سمجھ رہے تھے ایرانی انقلابی کو۔ المیہ یہ ہوا کہ عرب و فارس کی اس جنگ کو ہمارے دیسی بدووں نے شیعہ سنی جنگ کے طور پر یہاں پیش کیا مگر شدید ناکامی ہوئی ان دیسی مسلمانوں کو۔

چند محدود لوگوں اور ایک فہم رکھنے والوں کے علاوہ پاکستانی عوام کی اکثریت عراق کو جارح سمجھتی رہی۔ عرب اور فارس کے تاریخی اختلافات بھی ادیان سے زیادہ علاقائی بالادستی کی فکر لئے ہوئے ہیں۔

ہمارے جو دیسی مسلمان ایرانیوں کو مجوسیوں کی اولاد کہتے نہیں تھکتے ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ ظہور اسلام کے بعد دائرہ اسلام میں آنے والے عربوں کا ماضی کیا تھا۔ اگر کلمہ پڑھ لینے سے ماضی سے تعلق ختم ہوجاتا ہے (مذہبی و فکری طور پر) تو یہ سہولت فقط عربوں اور ہندوستانی نو مسلموں کے لئے ہی کیوں۔

ایرانیوں یا دوسروں کو کیوں نہیں۔

پرائی شادیوں میں عبداللہ دیوانہ والی مثال تو ہم بچپن سے سنتے آرہے تھے مگر پرائی جنگوں میں دیسی مسلمانوں کی عبداللہ دیوانے کی طرح شرکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔

ہمارے محب مکرم خورشید ندیم بھی کبھی کبھی جب مسلم دنیا میں اختلافات کی بات کرتے ہیں (جیسا کہ انہوں نے تازہ تحریر میں کیا) تو ذکر عباسی دور سے کرتے ہیں حالانکہ عباسی دور کا آغاز اس وقت ہوا جب مسلم دنیا فکری اختلافات کا بہت زیادہ مزا چکھ چکی تھی۔ خود اموی خلافت نے اسی اختلاف کی کوکھ سے جنم لیا اور جو بویا وہ سود سمیت وصول کیا۔

لاریب آئمہ ربع یا مکتب امامت کے پیشوا امام جعفر صادقؒ کی تعلیمات میں تکفیر تلاش کئے نہیں ملتی مگر تکفیر کا کاروبار عباسی دور سے پہلے بھی عروج پر رہا۔

عباسیوں نے اپنا سودا بیچا اور پھر ترک عثمانیوں نے اپنا۔ ہمیں ٹھنڈے دل سے اس کڑوی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسلمان حکمرانوں نے اسلام یا یوں کہہ لیں اسلامی مکاتب فکرکے نظریات کو اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ کسی دور کے حکمران نے اس امر کو مدنظر رکھنے کی ضرورت نہیں محسوس کی کہ امت اپنے قول و عمل، طرز نظام اور دیگر حوالوں سے اپنے رسولِ معظمﷺ کا چہرہ ہوتی ہے۔

فرقہ واریت اور دہشت گردی ہر دو کو الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ مثال کے طور پر جب آل سعود نے برطانیہ کی مدد سے حجاز مقدس پر قبضہ کیا تو حجاز کے حکمران شریف مکہ نسبی اعتبار سے ہاشمی اور مسلکی اعتبار سے صوفی سنی تھے۔ آل سعود اور شریف مکہ کے درمیان ہوئی لڑائی خالص مسلکی عقائد کی جنگ تھی۔

ہمیں تھوڑا سا پیچھے جاکر دیکھنا ہوگا۔ عباسی خلافت کے مقابلہ میں مصر کی فاطمی اسماعیلی خلافت تھی دونوں کے درمیان جو بھی معاملات ہوئے ان کے پیچھے نسب ناموں کی برتری کے زعم کے ساتھ مروجہ عقائد کا بھی دخل تھا۔

صلاح الدین ایوبی نے مصر فتح کیا تو اسماعیلیوں کی شامت آگئی۔ برصغیر میں اورنگزیب عالمگیر مغل بادشاہوں میں سے واحد حکمران تھے جنہوں نے اپنی حکمرانی کو عقائد کی بالادستی کی جنگ کے طور پر پیش کیا۔

ملتان پر محمود غزنوی کا حملہ بھی بنیادی طور پر عقیدوں کی بالادستی کی سوچ سے عبارت تھا۔ یہ حملہ ملتان کے ہی کچھ مولوی حضرات کے لکھے گئے خطوط کی بنیاد پر ہوا تھا

ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ حکمرانوں اور عقائد کی بالادستی کے خواہش مندوں دونوں نے ایک دوسرے کو ہر دور میں استعمال کیا لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ فقط حکمرانوں نے عقائد کو ہتھیار بنایا۔

بہت ادب کے ساتھ یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ القاعدہ، جنداللہ، جہاد اسلامی، داعش اور حزب التحریر کا تصور خلافت، خلافت راشدہ کے نظام سے قطعاً عبارت نہیں بلکہ یہ عقائد کی بنیاد پر تکفیر کی وہ سوچ ہے جس نے عرب اور مصر میں جنم لیا اور پھر قدم قدم سارے عالم اسلام میں پھیلی۔

سو اگر ہم پاکستان کو ان حالات سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں جن سے بلاد عرب کے کچھ ملک گزر چکے اور نتائج بھگت رہے ہیں یا پڑوس کے افغانستان میں دیکھنے کو ملتے ہیں تو لازم ہے کہ پاکستان کو امریکی و عربی سامراج سے فاصلے پر رکھیں۔ یہ ہمارا ملک ہے اس کے آج کے مالک ہم اور کل کے وارث ہمارے بچے ہیں۔ پرائی لڑائیوں میں عبداللہ دیوانے کی طرح کی پرجوش شرکت کا بہت خمیازہ بھگت لیا گیا۔

اب انقلابی خطوط پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پہلے قدم کے طور پر فرقہ وارانہ عقائد کی بنیاد پر قائد جماعتوں پر پابندی لگایئے اور دوسرے قدم پر یکساں مگر سیکولر نصاب تعلیم کو رواج دیجئے۔

اس سے پہلو تہی کے نقصانات کا متحکمل نہیں ہوا جاسکتا۔ آخری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا کونسا فرقہ سیاسی بنیادوں پر بنا اور کونسا دینی وراثت پر یہ کالموں میں کرنے والی باتیں نہیں مکالمے کی چیز ہے لیکن اس بنجر سماج میں مکالمہ آبیل مجھے مار کی دعوت عام ہے۔