1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. اظہار رائے پر پابندی جمہوری اقدار کے منافی ہے

اظہار رائے پر پابندی جمہوری اقدار کے منافی ہے

دنیا میں ریاست کے تصور کے وجود میں آنے کے بعد روز اول سے ریاست ہمیشہ خوف کے دم پر اپنی حاکمیت برقرار رکھتی آئی ہے۔ انجانے یا ان دیکھے خوف خود ساختہ طور پر پیدا کرکے عوام کو ان خطرات سے ڈرا کر مقتدر قوتیں طاقت کا اختیار اپنے پاس رکھتی ہیں۔ امریکہ میں شہریوں کو دہشتگردی اور دنیا کے امریکہ بارے خطرناک عزائم کا دھوکا دیکر وہاں لوگوں کو ریاستی پالیسیوں کے تابع رکھا جاتا ہے۔ روس اور چین میں امریکہ سے ان دیکھی سازشوں اور خطرات کا ڈر پیدا کرکے وہاں کی عوام پر حاکمیت اور تسلط قائم رکھا جاتا ہے۔ غرض ساری دنیا میں ریاستیں بیرونی خطرات کا ایک مصنوعی ڈر پیدا کرکے حب الوطنی اور قومی نرگسیت کی زنجیروں کی مدد سے عوام کو قابو میں رکھتی ہیں۔

دوسری قسم اندرونی خطرات اور خوف کا ماحول پیدا کرنے سے متعلق ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں میں کالے گوروں سے یا گورے لاکوں سے ڈرے رہتے ہیں اسی طرح ایک خوف ریاست کی طاقت اور کا اختیارات کا پیدا کیا جاتا ہے اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خوف کہا جاتا ہے۔ یہ خوف ریاست کی ان پالیسیوں یا نظریات کے تشخص کو برقرار رکھنے کیلیۓ پیدا کیا جاتا ہے جو بنیادی طور پر ریاست کی بنیادی اساس یا ڈھانچے سے متعلق ہوتے ہیں۔ نظام چاہے جمہوریت ہو یا آمریت ریاست اور عوام کا رشتہ ہمیشہ حاکم اور محکوم کا ہی رہتا ہے۔ ریاست کی طاقت کو استعمال کرنے والے گروہ یا اشرافیہ آپس میں اقتدار کے حصول کی جنگ یا اپنے اپنے اختیارات کی بالادستی کی لڑائیوں میں عوام کو بطور چارہ استمال کرتے ہیں۔

جدید دنیا میں جہاں شعور و ادراک کی منازل کی بلندیاں حاصل کی گئیں وہاں موجود ریاستوں نے بھانپ لیا کہ صدیوں پرانا آزمودہ فارمولا جو وطن پرستی مذہب پرستی یا نرگسیت پر مبنی تھا اور جس کے دم پر ریاست کے بنیادی نظریات و اساس پر سوالات اٹھانے والوں کو غدار یا توہین کا مرتکب قرار دے کر باآسانی راستے سے ہٹا دیا جاتا تھا اب قابل قبول اور قابل عمل نہیں ہے۔ اس لیئے مہزب معاشروں یا ریاستوں نے وطن پرستی قومی و تہذیبی نرگسیت کے نام پر تنقید کق جبر سے کچلنے کے بجائے سوالات کا موقع دیتے ہوئے یہ پابندیاں اٹھا لیں۔

اس اقدام کی بنیاد علم نفسیات کی یہ بنیادی منطق تھی کہ اگر ریاست یا معاشرے میں بسنے والے انسانوں کو اپنے جذبات احساسات کے اظہار کا بھرپور موقع دیا جائے تو وہ افراد جو روایات سے ہٹ کر آواز اٹھانے یا سوالات اٹھانے کے عادی ہیں اگر ان کی آوازوں اور سوالات کو دبانے یا جبرا کچلنے کے بجائے انہیں اظہار رائے کی آزادی دی جائے تو نہ صرف انقلابی تحریکوں یا بغاوت کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں بلکہ معاشرے میں بستے انسان اہنے اپنے نظریات یا تنقید کا اظہار کرکے ایک طرح سے لاشعوری طور پر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہوئے نظام سے بغاوت کے بجائے اس کے ساتھ منسلک رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے آزادی اظہار رائے کو پوری دنیا میں انسانوں کے ایک اہم اور بنیادی حق کے طور پر جانا جاتا ہے۔

وطن عزیز میں سائبر کرایم بل جب پاس ہو رہا تھا تو سول سوسائٹی نے اس کے خلاف آواز بلند کی تھی کیونکہ پاکستان کی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے باآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں قوانین لوگوں کے حقوق کا دفاع کرنے کے بجائے ان کے حقوق سلب کرنے کیلئے استعمال ہوا کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں جس بے رحمانہ طریقے سے سوشل میڈیا کے ایکٹوسٹس اور صحافیوں کو ایف آئی کے زریعے ذلیل کیا جا رہا ہے اس کو دیکھ کر مشرف اور ضیاالحق کے دور کی آمریت یاد آ جاتی ہے۔

سوشل میڈیا نے وطن عزیز میں پڑھے لکھے لوگوں کو بات کرنے اور اپنی بات پالیسی سازوں تک پہنچانے کا ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جو کہ مین اسٹریم میڈیا اپنے مفادات کی وجہ سے پیش کرنے میں ناکام رہا۔ اس پلیٹ فارم سے روایتی سوچوں اور نظریات کو چیلنج بھی کیا گیا اور اسی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے عوام کو مختلف معاملات کے حقائق تک رسائی یا تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے میں مدد ملی۔ سوشل میڈیا پر یقینا طوفان بدتمیزی بھی آیا اور اس کو اداروں کی بدنامی کیلئے بھی استعمال کیا گیا لیکن اس کا حل کسی بھی طور پر آوازوں کا گلا گھونٹنا یا اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنا ہرگز بھی نہیں ہو سکتا۔

حالیہ دنوں میں جس غیر مہذب طریقے سے سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں اور بلاگرز کو ایف آئی کے ذریعے ہراساں کیا گیا نا صرف یہ اقدام قابل مذمت ہے بلکہ جمہوری اقدار اور رویوں کے منافی بھی ہے۔ ایسے تمام افراد جو اختلاف رائے کے حق کو استعمال کرتے ہوئے حکومت یا اداروں کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں ان کے اس حق کو صلب کر لینا دراصل ریاستی جبر کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا پر نہ صرف گستاخانہ مواد بھی موجود ہے بلکہ اکثر و بیشتر ملکی اداروں پر غیر ضروری تنقید اور دشنام طرازی بھی کی جاتی ہے لیکن بجائے ایسے عناصر کی سرکوبی کرنے کے اداروں یا ریاست کی پالیسیوں پر تنقید کو ہی جرم ٹھہرانا ایک ناقبل قبول اقدام ہے۔

سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کی بدولت دنیا میں ایک نئی عالمی تہذیب نے جنم لیا ہے اور اب اس تہزیب میں سرحدوں کی قید سے اور رنگ و نسل کے تعصب سے پاک کڑوڑوں انسان ایک دوسرے سے انسانیت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن ہو یا اسے استعمال کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے تو شور محض وطن میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مچتا ہے۔ شاید حکومتی حلقوں میں موجود پالیسی ساز دنیا کی اس نئی گلوبل تہزیب کو سمجھنے سے ہر چند قاصر ہیں۔

حالیہ کریک ڈاؤن کا فائدہ سیدھا سیدھا حکومت کو اس ضمن میں ملتا نظر آتا ہے کہ اسے ڈر اور خوف کی بنیاد پر کسی حد تک سوشل میڈیا پر اپنے اختیارات مسلط کرنے کا موقع ملے گا اور دوسری جانب اس مسئلے کا ایک اہم خبر بننے سے بہت سی ایسی خبریں پس پشت چلی جائیں گی جو کہ موجودہ حکومت کیلئے تشویش کا باعث ہیں۔ نواز شریف خود ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں جیلوں کا سامنا کر چکے ہیں اور وہ اور ان کی جماعت خود ریاستی جبر سہہ کر اور اظہار رائے پر پابندی کے زیر سایہ آمریت کے دور میں مزاحمت کرکے اس مقام تک پہنچے ہیں۔

اگر اس قدر تکالیف کا سامنا کرکے بھی وہ یا ان کی جماعت جمہوری رویوں اور اقدار کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو یہ انتہائی بدنصیبی کی بات ہے۔ دوسری جانب عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کی سختی سے مزمت کی بلکہ واشگاف الفاظ میں یہ بھی دہرا دیا کہ حکومت یا ریاستی اداروں پر تنقید کرنے سے شہریوں کو نہیں روکا جا سکتا۔ اب ایسے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ یا سیاسی کارکن جو اپنی اصل شناخت کے ساتھ کسی بھی پالیسی یا معاملے پر تنقید کرتے ہیں ان کو یہ سوچنا چائیے کہ اگر پرویز رشید جیسے مخلص اور بے لوث سیاسی رہنما کو اقتدار کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے تو باقی کارکن کس کھیت کی مولی ہیں۔

سول سوسائیٹی کو پہلے دن سے ہی خدشہ تھا کہ سایبر کرائم بل کو شہریوں کا تحفظ کرنے کے بجائے انہیں ہراساں کرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ اور موجودہ سوشل میڈیا کریک ڈاؤن اس خدشے کو درست ثابت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ قانون آگے چل کر نواز شریف کو ایسے ہی نقصان پہنچائے گا جیسے سیف الرحمان پر مبنی احتساب کمیشن نے نوے کی آخری دہائی میں پہنچایا تھا۔ جمہوریت صرف انتخابات جیتنے یا سڑکیں اور پل بنانے کا نام نہیں ہوا کرتی اگر شہریوں کو جمہوری دور میں بھی جان و مال کا تحفظ نہ حاصل ہو اور آزادی اظہار رائے پر قدغن یا پہرے ہوں تو پھر جمہوریت اور آمریت میں کوئی خاص فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ یہ اقدام اٹھا کر ایک منتخب حکومت نے بذات خود جمہوریت کے ماتھے پر کالک ملنے کا کام کیا ہے۔

عماد ظفر

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔