1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. زینب کا مجرم پکڑا گیا لیکن کیا ہم نے کوئی سبق سیکھا

زینب کا مجرم پکڑا گیا لیکن کیا ہم نے کوئی سبق سیکھا

آخر کار چودہ دنوں کے انتظار کے بعد ننھی کلی زینب اور سات دیگر ننھی بچیوں کا قاتل عمران علی نقشبندی قانون کے شکنجے میں آ گیا۔امید غالب ہے کہ وہ جلد ہی اپنے انجام کو بھی پہنچ جائے گا۔ مجرم تک رسائی میں ڈی این اے ٹیسٹ نے کلیدی کردار ادا کیا اور پولی گرافک ٹیسٹ نے اس سے اقبال جرم میں بھی کردار ادا کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قصور میں پہلی بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تو اسی وقت کیوں نہ ان خدمات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے مجرم کو پکڑنے کی کوشش کی گئی؟ مجرم کو پکڑنے کے بعد اسے میڈیا پر پیش کرنے کے بجائے شہباز شریف کا پریس کانفرنس کر کے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا عمل بھی ہرگز قابل ستائش نہیں تھا۔ خیبر پختونخواہ میں زیادتی کا شکار ہو کر قتل ہونے والی بچی عاصمہ کے قتل پر میڈیا کی خاموشی اور تحریک انصاف کی اس جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی ایک مکروہ فعل ہے۔ سیاست کیلئے بچوں اور بچیوں کی لاشوں کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چائیے۔ خیر مدعا یہ ہے کہ ہم نے زینب اور دیگر معصوم بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقع سے بطور معاشرہ کیا سیکھا؟

دنیا بھر میں جب بھی کوئی مجرم اس طرح کے واقعات میں ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے پکڑا جاتا ہے تو یہ ڈی این اے ماڈیولز دریافت کرنے والے عظیم سائنسدانوں سر واٹسن اور کرک کی انسانیت کیلئے خدمات کا اعتراف اور ثبوت ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں اسلامی نظریاتی کونسل نے جنسی زیادتی کے ثبوت کے طور پر ڈی این اے ٹیسٹ کو رد کرتے ہوئے اسے حرام قرار دے رکھا ہے۔ آج بھی ہمارے اسلامی نظریاتی کونسل کے علما کے نزدیک زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کو چار چشم دید گواہ پیش کرنا لازم و ملزم ہے۔ یعنی عدالت میں ایک عورت کو یا بچی کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے وہ چار گواہ ڈھونڈ کر لانے ہیں جو دوران زیادتی اس کو آرام سے درندوں کی ہوس کا شکار بنے دیکھتے رہے۔ یہ انتہائی منفرد اور انوکھی منطق ہے ،اگر چار افراد موقع پر موجود ہوتے ہوئے کسی عورت یا بچی کی عزت خاموشی سے لٹتے دیکھتے رہے تو وہ گواہی دینے کا کشٹ کیسے اٹھائیں گے؟ اور کیوں کر ان چار افراد کو بھی شامل جرم گردانتے ہوئے ان کے خلاف بھی کاروائی بھی عمل میں نہ لائی جائے کہ موقع پر موجود ہوتے ہوئے بھی وہ خاموشی سے یہ جرم سرزد ہوتا دیکھتے رہے ۔

علمائے کرام سے گزارش ہے کہ یا تو سائنسی علوم سے دشمنی چھوڑیں یا پھر سائنس اور ٹیکنالوجی کی خدمات سے محض ایک ماہ دور رہ کر عملی نمونہ پیش کریں۔ اسی طرح ڈارک ویب کے مافوق الفطرت قصے سنا نے والے اور فحاشی و عریانی کی گردانیں الاپتے ، سماجی اقداروں کے خود ساختہ ٹھیکیداروں نے جس بھونڈے طریقے سے اس جنسی دہشت گردی کو شخصی آزادی کا نتیجہ قرار دیا تھا ان کو بھی شاید یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جرم کا تعلق مغربی یا مشرقی روایات سے نہیں ہوتا بلکہ اس کی وجہ وہ عوامل ہیں جنہیں ہم بطور معاشرہ نظر انداز کرتے چلے آئے ہیں۔ شخصی صداقتوں کے اظہار کو گناہ و ثواب سے نتھی کرنے کی وجہ سے وہ مسائل پیدا ہوتے ہیں جو آگے چل کر منافقت کا باعث بنتے ہوئے اپنی جنسی تسکین یا محرومیوں کا بدلہ جنسی زیادتی کی صورت میں لیتے ہیں ۔ بچوں سے جنسی زیاستی کے واقعات کے محرکات میں جنسی تسکین سے زیادہ مجرم اپنی شکست خوردہ انا اورمحرومی کی تسکین حاصل کرتا ہے۔ایسے میں بچوں یا بچیوں کو ان کے جسمانی اعضا کے بارے میں آگاہی دینا اور ان کو کسی کو چھونے نہ دینے کے درس کو کسی بھی طور عریانی اور فحاشی پر مبنی تعلیم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ ویسے بھی جنسی تششد سے متعلق تعلیم نہ دینے کی مخالفت کا نتیجہ بھی ہم سب کے سامنے ہے۔ دوسروں کے ذاتی زندگی کے معاملات کو گناہ و ثواب کے پلڑے میں تولنے کے بجائے اگر بذات خود اپنے بچوں کو دور جدید کی تعلیمات سے روشناس کروایا جائے تو نہ صرف اس کے دور رس نتائج معاشرے پر مرتب ہوں سکتے ہیں بلکہ زینب جیسی کئی بچیوں کی زندگیاں بھی بچائی جا سکتی ہیں۔

زینب کے قاتل کا معاشرے میں اپنے عقیدے اور دکھاوے کی مذہبی رسومات کو ادا کرنے کے واقعے سے بھی ہمیں یہ سچ سیکھنے اور برداشت کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ محض عقائد یا مسلک سے وابستگی کسی کو بھی نہ تو جرم کرنے سے روک سکتی ہے اور نہ ہی اس سے کسی کو اچھے انسان ہونے کی سند مل جاتی ہے۔ سکینڈینیوین ممالک میں جرائم کی شرح پوری دنیا میں کم ہے اور اس کا تعلق ان ممالک میں بسنے والے افراد کے عقائد سے نہیں ہے بلکہ وہاں کے بسنے والوں کی ذہنی پختگی اور شعور کے ساتھ ہے۔ان ممالک میں سزائے موت کا تصور نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان معاشروں کی اعلی انسانی اقدار بنا کسی سزا یا جزا کے ،جرم کی جانب انہیں راغب نہیں ہونے دیتیں۔ خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک سب سے افضل چیز عمل ہے اور اچھا عمل کوئی بھی کر سکتا ہے۔ جے آئی ٹی کے سربراہ پر ایک دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے کی پاداش میں تنقید کرنے والے حضرات اب مجرم عمران کے ہمارے ہی عقیدے سے تعلق رکھنے پر کیا دلیل پیش کر سکتے ہیں اور کیا اب بھی عقائد کو بنیاد بنا کرانسانوں سے نفرت کی تعلیمات دینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔شاید ہمیں مزید کئی دہائیاں درکار ہیں اس چھوٹے سے نکتے کو سمجھنے کیلئے کہ عقائد کا تعلق پیشہ وارانہ قابلیت اور مہارت کے ساتھ نہیں ہوا کرتا۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے خالق سائنسدانوں نے اس ٹیسٹ کو اگر عقائد کی بنا پر مخالف مسلک یا مذہب کے افراد کو اس سے مستفید ہونے کی اجازت نہ دی ہوتی تو کیا آج زینب کا قاتل پکڑا جاتا۔اگر دل کے امراض کی دوائیاں قومیت یا مسلکی بنیادوں پر فروخت کی جاتی یا بانٹی جاتیں تو کیا ہم وطن عزیز میں کسی بھی ایک دل کے مریض کو شفایاب کروانے پاتے؟ زینب کے اس کیس سے جنم لینے والے سوالات اور اسباق میں سے ایک انتہائی اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا ہم نےجنسی تشدد کے روک تھام کیلئے ذہن سازی اور قانون سازی کرنی ہے یا اب بھی محض مغرب اور کفار کو بے حیائی اور عریانی کا منبع قرار دیتے ہوئے اپنے سماج میں موجود مسائل سے چشم پوشی اختیار کرنی ہے؟ کیا مردانہ و زنانہ جنسی امراض اور شہوت کی تسکین کی ادوایات کے اشتہاروں سے بھرے پڑی دیواروں والے معاشرے میں، ہم جنسی تشدد سے آگاہی کے اشہارات آویزاں نہیں کر سکتے یا ٹی وی اور سٹیج ڈراموں اور دیگر فنون لطیفہ کی مختلف قسموں کی مدد سے اس بارے میں بچوں بچیوں یا عورتوں کو آگاہی نہیں فراہم کی جا سکتی؟ بچوں اور بچیوں کے ساتھ اس قسم کے واقعات ساری دنیا میں رونما ہوتے ہیں لیکن اکثر دنیا بھر میں ایسے واقعات کے تدارک کیلئے سیاسی یا مذہبی کارڈ کھیلنے کے بجائے ان کے تدارک کیلئے عملی اقدامات کئیے جاتے ہیں۔ معاشروں میں مکالمے کا اہتمام کیا جاتا ہے کریمنالوجی اور نفسیات کے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے آگاہی کی مہم چلائی جاتی ہے ۔

زینب کے قاتل کا یہ بیان بھی ہمارے معاشرے کےایک بڑے مسئلے کی جانب نشان دہی ہے کہ اس پر ایک جن آتا تھا جو اس کو قابو کر کے اس سے بچیوں کا ریپ بھی کرواتا تھا اور اس سےان کا قتل بھی کرواتا تھا۔ نفسیات کی دنیا میں اس جن آنے کی کیفیت کو سپلٹ پرسنالٹی ڈس آرڈر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس بیماری کے زیر اثر افراد ایک ہی وقت میں اپنے اندر منقسم اور مختلف شخصیات کو جنم دے دیتے ہیں۔ اس بیماری کا باقاعدہ علاج ادوایات اور تھراپی سے کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس بیماری کو جن بھوت اور چڑیل کے سائے سے جوڑ کر عاملوں یا پیروں اورمولویوں کے ذریعے پھونکوں اور تعویذ گنڈوں سے جنات نکلوائے جاتے ہیں۔ نتیجتا یہ مرض بڑھتا جاتا ہے اور اس کا شکار افراد اپنے اور دوسرےافراد کیلئے خطرے کا باعث بھی بن جاتے ہیں ۔اب وقت کی اشد ضرورت یہ ہے کہ معاشرے کی ذہن سازی کیلئے سب سے پہلے جدید سائنس اور جدید نفسیاتی علوم سے متصادم نظریات اور رسوم و رواج کو ختم کر کے انسان دوست اور علم و آگہی پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی جانب سفر کا آغاز کیا جائے۔ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جائے جہاں انسانی جذبات احساسات اور انسانی زندگیاں عقائد، رسوم و رواج ،نظریات اور اناوں پر مقدم گردانی جائیں ۔

عماد ظفر

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔