1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. ڈیپ اسٹیٹ ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ

ڈیپ اسٹیٹ ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ

رائے عامہ کو اپنی مرضی کے تابع کرنے کیلئے پراپیگینڈے کا استعمال ہمارے ہاں روز اول سے ہی کیا جاتا رہا ہے۔ آئین اور دستور ہمارے ہاں وہ موم کے سانچے ہیں جنہیں طاقتور اور بااثر قوتیں باآسانی سے اپنی مرضی کے مطابق جب اور جہاں چاہیں موڑ سکتی ہیں۔ کہنے کو تو وطن عزیز میں آئین ہے دستور ہے اور پارلیمان آئین و قانون بنانے کا ادارہ لیکن درحقیقت ہمارے ہاں دستور پر بلڈوزر چلانے اور آئین کو قدموں تلے روندنے کا رواج عام بھی ہے اور قابل قبول بھی ہے۔ وطن عزیز میں پچاس کی دہائی سے یہ کھیل جاری و ساری ہے۔ 17 وزرائے اعظم آئے اور اسی دستور اور آئین کے موجود ہوتے ہوئے بھی گھر بھیج دئیے گئے۔ جب منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجا جاتا رہا اس وقت عدلیہ اور بیوروکریسی سر تسلیم خم کرتے ہوئے آئین و قانون میں سے جمہوریت اور عوام کے مینڈیٹ پر شب خون مارنے کے جواز ڈھونڈتے رہے۔ جسٹس منیر کی بدروح نے عدلیہ پر ایسا سایہ چھوڑا کہ آج تک عدل کا میزان اس کے سایے کے زیر اثر دکھائی دیتا ہے۔ بیوروکریسی کو دیکھئے تو وہاں قدرت الہ شہاب اور الطاف گوہر کی ریت برقرار رکھتے ہوئے "یس سر" کی عادت اور ہر طالع آزما کی فرمانبرداری کی ریت نظر آتی ہے۔

سیاستدانوں کو پس پشت قوتوں کی بیساکھیاں درکار ہوتی ہیں جبکہ پس پشت قوتیں ان تمام طبقات میں سے چند ایک کی خدمات حاصل کر کے سیاسی انجینئرنگ اور مینوفیکچرڈ رائے عامہ کی تشکیل دے کر حکومتوں اور چہروں کو بدلتی رہتی ہیں۔ اس اقتدار اور قومی پالیسیوں پر اجارہ داری کی اس جنگ نے وطن عزیز کو ایک جمود میں جکڑ رکھا ہے۔ پاکستان میں آج بھی پس پشت قوتوں اور اداروں کا گٹھ جوڑ نظریہ ضرورت کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ منصف عدل کے ایوانوں میں بیٹھے سیاسی عمل کو تاک تاک کر نشانہ بناتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ پس پشت قوتیں پردے کے پیچھے سے ڈوریاں ہلاتے ہوئے عوام پر اپنی مرضی کے ایسے اپاہج رہنما مسلط کرنا چاہتی ہیں جو ان کے فراہم کردہ سیاسی وینٹیلیٹر کے دم پر بقا کی سانسیں لے اور ڈکٹیشن نہ لینے کی صورت میں اس سے یہ سیاسی وینٹیلیٹر کھینچ کر باآسانی سیاسی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ جو سیاسی مہرے آج پس پشت قوتوں کی ایما پر جمہوری اقداروں کو تباہ کرتے ہوئے اقتدار کے مسند پر بیٹھنا چاہتے ہیں انہیں تاریخ کے سبق کی سمجھ نہیں آئی اور جلد ہی یہ مہرے ملکی تاریخ میں ایسٹیبلیشمنٹ کے کارندوں کے طور پر جانے جائیں گے جن کا انجام اصغر خان اور گجرات کے چوہدریوں کے جیسا ہو گا۔

ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر پس پشت قوتیں نواز، شریف کو مسلم لیگ نون کی صدارت سے ہٹا، دیں اور اسے احتساب کے الف لیلوی مفروضوں اور کیسز کے تحت پابند سلاسل بھی کر دیں۔ لیکن بہر طور جو بیانیہ پس پشت قوتوں اور معزز عدلیہ کے خلاف تیار ہو چکا ہے اس کو ختم کرنا یا جبرا دبانےکا کام کسی بھی پراکسی جنگ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ محسوس کچھ ہوں ہوتا ہے کہ طاقت کی اس اعصاب شکن جنگ میں پس پشت، قوتوں اور ان کے حلیفوں کے اعصاب اب جواب دے چکے ہیں۔ جس طریقے سے "احتساب " کو بنیاد بنا کر نواز، شریف اور مریم نواز کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ شاید بساط پر چلایا گیا ہر مہرہ پٹنے کے بعد اس بساط کو لپیٹنے کی تیاری جاری و ساری ہے۔ محترم چیف جسٹس اور معزز جج حضرات جس انداز سے ریمارکس پاس کر رہے ہیں اس سے تاثر ملتا ہے کہ شاید فیصے پہلے سےکہیں اور طے کئے جا چکے ہیں اور اب محض ایک رسمی سی کاروائی کے بعد ان کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ ویسے تو دنیا بھر میں عدالتیں اپنے فیصلوں کے ذریعے بولا کرتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں عدالتیں اب افسانوی ناولوں کے اقتباسات اور جگت بازی کے ذریعے عدالتی فیصلوں کو مشکوک بنا دیتے ہیں۔ کسی بھی جج کو ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ قوانین کی تشریح کرنے کے بجائے ان قوانین پر اعتراضات اٹھائے جنہیں عوام کی منتخب کردہ پارلیمان سے پاس کروایا گیا ہو۔ توہین عدالت کی آڑ لے کر اگر اپنے اوپر ہوتی تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو پھر کسی اور پر بھی تنقید کرتے ہوئے خیال کرنا چائیے۔ سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کی بے توقیری کرنے سے نہ تو کسی کا قد اونچا ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ عوامی نمائندوں پر ہر وقت نظر رکھتے ہوئے ان کی خامیوں کو ابھارتا رہے۔

وطن عزیز میں احتساب، ملک دشمنی اور کرپشن کے نام پر مخالفین کو زیر کرنے کا مکروہ عمل روز اول سے پراپیگینڈہ کے دم پر قائم ہے اور شاید ہمیشہ ہی جاری بھی رہے گا یہ کھیل عوام کے مفاد کو بنیاد بنا کر ایسٹیبلیشمنٹ، ملا اور دانشور نوسر باز رچاتے ہیں۔ ان نو سر بازوں کا یہ اتحاد ہر ممکن طریقے سے وطن کے مستقبل تک کو بیچ کر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ یہ نیٹ ورک ایسٹیبلیشمنٹ، سرکاری منشیوں، صحافیوں، دانشوروں، مفاد پرست سیاستدانوں، بزنس مین اور مولویوں پر مشتمل ہے۔ ان کا یہ اتحاد جسے ڈیپ سٹیٹ یعنی ریاست کے اندر ایک اور ریاست بھی کہا جا سکتا ہے اس قدر حد تک خطرناک اور مضبوط ہے کہ وطن عزیز میں آج تک کوئی ایک بھی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے پایا۔ کوئی ایک بھی عوامی رہنما یا سیاسی جماعت کبھی مذہبی شدت پسندوں کے تسلط سے ریاستی بیانیے کو نہ آزاد کروانے پائے۔ کوئی ایک بھی عوامی رہنما اس وطن کو ڈالر سپانسرڈ جہاد میں جھونکے جانے اور نسل در نسل نوجوانوں کو نفرت و تعصب کے اندھیروں سے آزاد کروانے کی ہمت نہ کر پایا۔ یہ گروہ مملکت پاکستان کو اول روز سے پراپیگینڈے، مذیب، وطن پرستی اور مغربی طاقتوں کی سازشوں کی کہانیوں گھڑ کے اس وطن کے عوام کو اپنے پیچھے لگا کر اپ مقاصدحاصل کرتا چلا آیا ہے۔

اس گروہ کا طریقہ واردارت انتہائی دلچسپ ہے۔ یہ گروہ سب سے پہلے مذہب پر اجارہ داری قاِئم کرتا ہے اور اس کام میں مولوی، زاکرین، پیربابے اور نام نہاد علمائے دین ان کے کام آتے ہیں۔ گلی گلی پھیلا ہوا مساجد امام بارگاہوں اور دیگر عبادت گاہوں کا یہ نیٹ ورک عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہتا ہے کہ ان کا اپنا اپنا فرقہ یا مسلک یا مذہب خطرے میں ہے اور صرف مذہبی چورن فروش ہی اس خطرے کے تدارک کیلئے کچھ کر سکتے ہیں۔ روز و شب ہمہ وقت ایک ہی پراپیگینڈہ سن سن کر جب ایک پوری نسل تیار ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں کافر کافر یا مذہبی نرگسیت پسندی کا لگایا گیا بیج ایک تناور درخت بن چکا ہوتا ہے اور پھر باقی ساری زندگی یہ نسل اسی مذہبی تعصب اور شدت پسندی کے تعصب کی سوچ سے زندگی کے ہر معاملے کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وطن عزیز میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد بھی علم و آگہی کی نئی منازل کے کھوج کی تحقیق کرنے کے بجائے مسواک کی اہمیت یا ڈارون اور تھیوری آف بنگ بینگ کو غلط ثابت کرنے میں توانائیاں ضائع کر دیتے ہیں۔ عام سطحی ذہن کا آدمی تو خیر پراپیگینڈے کی وجہ سے مرنے مارنے سے کم بات پر آمادہ ہی نہیں ہوتا۔ یہ گروہ عوام کو مذہبی منافرت، فرقوں اور گروہوں میں تقسیم رکھ کر باآسانی اپنے اور اپنے آقاوں کے وسیع مفادات کا تحفظ کرتا رہتا ہے۔ وارداتیوں کا دوسرا طبقہ ان صحافیوں اور دانشوروں پر مشتمل ہے جو اپنے اپنے مالی تحفظات کی خاطر کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ یہ صحافی اور دانشور پراپیگینڈہ کے دم پر سطحی ذہن کے حامل افراد کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہتے ہیں کہ مذہب اور وطن دونوں ہی خطرے میں ہیں اور صرف اور صرف بندوقوں والے ہی وطن اور مذہب کو بچا سکتے ہیں۔ ہر دور کے سیاسی رہنما یا آمروں کے تلوے چاٹنے ان سے مراعات حاصل کرنے کے بعد یہ وارداتیے کمال ڈھٹائی سے اخلاقیات اور انصاف کے بھاشن دہتے عوام کو پتاہیحینڈے کے زیر اثر رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

اس ڈیپ سٹیٹ کا تیسرا اہم گروہ سرمایہ داروں وڈیروں اور پراپرٹی ڈیلرز پر مبنی ہے۔ یہ گروہ ہر ممکن طریقے سے قوانین کی دھجیاں بکھیر ک سادہ لوح افراد سے فراڈ کر کے ناجائز دولت کماتا ہے اور پھر اسی لوٹے ہوئے دھن میں سے کچھ حصہ خیرات یا فلاحی اداروں پر لگا کر پارسائی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرتا ہے۔ یہ طبقہ ہر سیاستدان اور آمر کو "خوش" رکھتا ہے۔ اور اکثر مارشل لا کے آنے کی راہ دیکھتا پایاجاتا ہے۔ ۔ ڈیپ سٹیٹ کے گروہ کا ایک اور حصہ چند حاضر سروس و ریٹائرڈجرنیلوں اور سرکاری افسران پر مشتمل ہے۔ یہ گروہ قانون اور اداروں کی رٹ کے نام پر اپنی اپنی جیبیں گرم کرتے ہوئے وقت کے حکمرانوں کے تلوے چاٹتے ہوئے ان کے مخالفین کا ہر ممکن طریقے سے استحصال کرتا ہے، مارشل لاوں کو آئینی و قانونی جواز فراہم کرتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد قبر میں پیر لٹکانے والی عمر میں بھی ٹیکنو کریٹ حکومت اور مارشل لا کے خواب دیکھتا ہے، تا کہ پھر سے کوئی جگاڑ لگا کر مزید کالا دھن یاآسائشات حاصل کی جا سکیں۔ اس ڈیپ سٹیٹ میں مفاد پرست سیاستدانوں کا بھی کلیدی کردار ہے۔ یہ سیاستدان ہوا کا رخ دیکھتے ہی اپنی اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے میں زرا برابر بھی دیر نہیں لگاتے اور اکثر و بیشتر ایسٹیبلیشمنٹ کی گود میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس ڈیپ سٹیٹ کی اصل کمان " پس پشت قوتوں " کے پاس ہے۔ جب بھی پس پشت قوتوں کو کسی سے خطرہ درپیش ہو تو ملاوں کے زریعے کافر و مرتد کے فتوے، صحافی و دانوشوروں کے زریعے کرپشن اور احتساب کی الف لیلوی داستانیں سنوا کر مخالف کو کمزورکیا جاتا ہے اور پھر سرکاری منشیوں کے دم پر انہیں پچھاڑ دیا جاتا ہے۔ اس سے بھی کام نہ بنے تو حب الوطنی کا چورن بیچتے ہوئے سیاسی بساط لپیٹ کر قصہ ہی تمام شد کر دیا جاتا ہے۔

ایوب سے لیکر مشرف تک یہ قوتیں مارشل لا کے ذریعے اور کبھی مختلف انجینئرڈ تحریکوں کے ذریعے، کبھی سامنے سے اور کبھی چھپ کر عوام پر حکمرانی کرتی ہی چلی آئی ہے۔ اس سارے کھیل میں ان سب قوتوں نے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے اور وطن عزیز کو شدت پسندی جہالت اور غربت کے اندھیروں میں دھکیل دیاہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ عوام خود بھی ان وارداتیوں کے ہاتھوں لٹ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتی بلکہ ہر ممکن طریقے سے ان قوتوں کے لگائے گئے ہر نئے تماشے کو دیکھ دیکھ کر تالیاں بجاتی ہے۔ یہ گروہ پہلے صرف شدت پسند اذہان پیدا کرتے تھے تا کہ مذہب اور قومیت پرستی پر اجارہ داری برقرار رکھی جا سکے لیکن اب ان گروہوں نے دولے شاہ کے چوہوں کی مانند ایک ایسی نسل بھی تیار کرنی شروع کر دی ہے جو حقائق و واقعات سے نابلد، تاریخ سے ناآشنا صرف اور صرف دیوانوں کی مانند گول دائروں میں گھومنے کو آزادی اور ایسٹیبلیشمنٹ کے مہروں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔ شدت پسند نسل تیار کرنے کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں اب اس دولے شاہ کی نسل کو تیار کرنے کا خمیازہ شاید ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہو گا کیوں کہ نہ تو یہ قوتیں تماشہ لگانے سے باز آتی دکھائی دیتی ہیں اور نہ ہی تماش بین وارداتیوں کا تماشہ دیکھنے کی لت سے چھٹکارہ حاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ریاست کی مختلف قوتیں اگر ایک دوسرے کو کمذور کرتے ہوئے صرف اپنے اپنے گروہی مفادات کا خیال رکھنا چھوڑ کر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالیں تووطن عزیز کا مستبل بہتر ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئیے ریاست کے اندر ایک اور ریاست کا کردار ادا کرنے والی ڈیپ سٹیٹ کو عوام کے مینڈیٹ کو پراہیگنڈہ اور دیگر طریقوں سے ہائی جیک کرنے کے عمل کو ختم کرنا ہو گا۔

عماد ظفر

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔