1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. احد چیمہ اور راو انوار دو مختلف بیانئیے

احد چیمہ اور راو انوار دو مختلف بیانئیے

آپ نےوطن عزیز میں اگر قانون کے دو مختلف ترازو دیکھنے ہیں یا ریاست کے اندر ایک اور ریاست دیکھنی ہے تو آپ احد چیمہ اور راو انوار کی مثالوں سے باآسانی وطن عزیز میں دو مختلف بیانیوں اور انصاف کے دوہرے معیار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ احد چیمہ ایک سول سرونٹ ہے اور مقابلے کے امتحان میں منتخب ہو کر آیا۔ مشرف دور میں چوہدری پرویز الہی نے پنجاب حکومت کے ""پڑھا لکھا پنجاب" کے پراجیکٹ کیلئے اس کو منتخب کیا۔ بعد ازاں مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت میں اسے اس کی گزشتہ کارکردگی کی بنا پر لاہور میٹرو پراجیکٹ کا انچارج بنایا گیا۔ جس قلیل مدت میں اس نے یہ منصوبہ تعمیر کروایا اس کی وجہ سے اسے میٹرو مین بھی کہا جاتا ہے۔ اپنی کارکردگی اور قابلیت کی بدولت احد چیمہ نے مختلف محکمہ جات میں اہم پوزیشنوں پر کام کیا۔ دوران ملازمت جس محکمے میں بھی احد چیمہ کو تعینات کیا گیا اس نے اپنی صلاحیتوں اور قابلیت سے وہاں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ چوہدری پرویز الہی کا دور ہو یا مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت احد چیمہ نے بنا کسی سیاسی تعصب یا وابستگی کے اپنے محکموں کا کام بہترین انداز میں انجام دیا۔

لیکن پھر احد چیمہ کی زندگی اور کیرئیر میں ایک انتہائی اہم موڑ آیا اور مسلم لیگ نواز سے پس پشت قوتوں کی ناراضگی اور لڑائ کا خمیازہ احد چیمہ کو بھگتنا پڑا، اور نیب نے بنا کسی ثبوت محض الزامات کی بنیاد پر اس کو ایک انتہائ توہین آمیز انداز میں گرفتار کر لیا۔ احد چیمہ کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں بکتر بند گاڑی میں اسے عدالت سے نیب کی حوالات میں شفٹ کیا گیا اور سلاخوں کے پیچھے سے اس کی تصاویر پورے ملکی میڈیا پر نشر کروائی گئیں۔ آمر مشرف کے تلوے چاٹنے، زرداری کی بیعت کرنے والے اور اب عمران خان کے قدم چومنے والے سیاسی نوسر باز فواد چوہدری سے احد چیمہ کے خلاف ایک پریس کانفرنس کروائی گئی جس میں اس کو شہباز شریف کا فرنٹ مین قرار دیا گیا اور اس پر لاتعداد جرائم کی فرد جرم میڈیا ٹاک کے ذریعے عائدکر دی گئ۔ احد چیمہ ایک دن میں ایک قابل ترین آفیسر سے ایک ولن بنوا دیا گیا۔ اب وہ چاہے انہی عدالتوں سے بے گناہی کا سرٹیفیکیٹ بھی لے آئے اسکی باقی زندگی معاشرے میں ایک مجرم کی مانند ہی گزرے گی۔ اس کے بچے اورخاندان کے دیگر افراداس معاشرے میں اس کی بے گناہی کی وضاحتیں دیتے پھریں گے۔ ایک ہی دن میں ایک قابل انسان کو کیسے ہیرو سے زیرو بنایا جاتا ہے احد چیمہ اس کی زندہ مثال ہے۔

اب آئیے راو انوار کی جانب، راو انوار نے چار سو پچاس کے قریب ماورائے عدالت قتل کئیے اوردھڑلے سے ایک کے بعد ایک جعلی پولیس مقابلے کرتا رہا۔ کراچی میں زمینوں پر بڑے افراد اور اداروں کا ناجائز قبضہ کروانے میں پیش پیش رہا۔ پولیس کے اپنے ذرائع کے مطابق راو انوار نے نجی عقوبت خانے بنا رکھے تھے جہاں وہ اپنے مخالفین یا اپنے آقاوں کے بھیجے گئے بندوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مار دیا کرتا تھا۔ بھتہ خوری، ماورائے عدالت قتل، منشیات فروشوں کی سرپرستی اور زمینوں پر قبضے جیسے سنگین جرائم میں نہ صرف وہ ملوث رہا بلکہ مقتدر حلقوں سے اسے اس دوران پشت پناہی بھی حاصل رہی۔ نقیب الہ محسود کے قتل اور اس قتل کے بعد عوامی دباو کی وجہ سے راو انوار کو ملازمت سے برخواست کیا گیا لیکن تمام گواہوں ثبوتوں کے ہوتے ہوئے بھی اس پر ہاتھ نہ ڈالا گیا۔ جب تک اعلی عدلیہ نے راو انوار کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تب تک وہ باآسانی ملک کے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چکمہ دے کر روپوش ہو چکا تھا اور تادم تحریر روپوشی میں ہے۔ راو انوار ہمارے ملک کے ریاستی جبر اور دوہرے قانون کے معیار کا وہ مکروہ چہرہ ہے جس کی پشت پر موجود قوتوں کا نام لینا ہی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔ محترم عمران خان راوانوار کو کچھ عرصہ قبل تک محض ایم کیو ایم کی سیاسی مخالفت میں ہیرو قرار دیا کرتے تھے۔ جبکہ زرداری صاحب کی نظروں میں وہ آج بھی بہادر بچہ ہے۔ ایک طرف راو انوار نامی اجرتی قاتل ہے جس نے پورے قانونی نظام کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا اور تمام تر الزامات ثابت ہونے کے باوجود آج بھی اطمینان سے اپنی پناہ گاہ میں بیٹھا ملک کے قانونی اور عدالتی نظام کے ساتھ واٹس ایپ پر میسج میسج کھیل رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب احد چیمہ کسی بھی الزام کے ثابت ہوئے بغیر اس وقت حوالات میں قید ہے۔ یہ دو مختلف اشخاص اور ان کے ساتھ برتا جانے والاانتقامی و امتیازی سلوک اس بات کا غماز ہے کہ موجودہ نظام راو انوار جیسے غنڈوں کو نہ صرف تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ ان کی پشت پناہی کے دم پر اپنے مخالفین پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑتا ہے۔

دوسری جانب یہی نظام احد چیمہ جیسے قابل افسران کو یہ پیغام دیتا ہے کہ قابلیت اور ذہانت کی اس سماج میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے اور اگر آپ مقتدر قوتوں کی منشا کے بغیر ایک قدم بھی چلنے کی کوشش کریں گے تو آپ کا انجام کال کوٹھڑی ہو گا۔ ۔ آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجئے احد چیمہ ایک قابل سول سرونٹ ہے اور مختلف امداد فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے ہنجاب حکومت کے ساتھ اہنے اشتراکی منصوبوں میں اس کے کام کی افادیت اور اس کی قابلیت کو تسلیم کر چکے ہیں۔ احد چیمہ جب چاہتا کسی بھی بین الاقوامی ادارے سے وابستہ ہو کر بیرون ملک مقیم ہو سکتا تھا اور اس قدر تنخواہ اور مراعات حاصل کر سکتا تھا، جن کو حقصل کرنا اس ملک کے اکثریت طبقے کیلئے ایک خواب سے کم نہیں ہے۔ شاید وہ اپنے مقدمات سے فارغ ہونے کےبعد یہی کرے گا اور نتیجتا پاکستان ایک قابل دماغ سے محروم ہو جائے گا۔ احد چیمہ کی مثال دیکھ کر اور بھی بہت سے قابل اور نوجوان افسران وطن عزیز کو چھوڑ کر باہر مقیم ہو کر زندگی بسر کرنے کا سوچیں گے۔ اور یوں وطن عزیز کئ قابل دماغوں سے محروم ہو جائے گا۔ پھر وطن عزیز میں راو انوار جیسے غنڈے اور فواد چوہدری جیسے سیاسی وارداتیئے باقی رہ جائیں گے۔ اپنی سیاسی و فکری وابستگیوں کے تعصب میں ہم سب اندھے ہو کر محض الزامات کی بنیاد پر کسی بھی مخالف کو چور، مجرم اور غدار تو قرار دے دیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہماری اس تماش بینی کی علت کا نقصان ہمارے ہی سماج اور وطن عزیز کو ہوتا ہے۔

احد چیمہ کو سزا دینے کی پھرتیاں دکھانے والے ادارے کےسربراہ آج تک ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کو دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ عدل و حکمرانی کی باتیں کرنی والی عدلیہ آج بھی مشرف کا ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے تھر تھر کانپتی ہے۔ سماجی رویے ہوں یا آئین و قانون یا پھر ریاست کی مقتدر قوتیں سب ایک دہرے معیار کا شکار نظرآتے ہیں۔ دہرے معیار اور اقدار کے سہارے پنپنے والے سماج اور نظام گول دائروں میں تو گھوم سکتے ہیں لیکن آگے بڑھنے اور ترقی کے عمل میں شریک نہیں ہو سکتے۔ آپ ملکی ستر سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کو وطن عزیز صرف دائروں میں گھومتا نظر آئے گا اور مقتدر قوتیں ان دائروں کے بڑھنے کو آپ کو راستوں کی طوالت کم قرار دینے کے جھوٹے دعوے کرتی دکھائ دیں گی۔ ان دونوں کیسز کو سامنے رکھئیے اور خود سے فیصلہ کیجئے کہ آپ اپنےبچوں کو احد چیمہ جیسے قابل دماغ دینا چاہتے ہیں یا راو انوار جیسے اجرتی اور پیشہ ور قاتل،۔ یاد رہے کہ درست اور مناسب فیصلے سیاسی اور نظریاتی تعصب سے بالاتر ہو کر دوہرے معیارکو ترک کر کے لئیے جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو احد چیمہ کی جگہ رکھ کرایک بار تنہائ میں سوچئیے گا کہ آپ کو کیسا لگے گا اگر کل کو آپ پر کوئی دوران ملازمت چوری یا رشوت لینے کا الزام لگائے یا آپ پر آپ کے کاروباری دفتر یا دوکان میں آ کر فراڈ اور جعلسازی کا الزام لگائے۔ ابھی الزام کسی بھی قانونی عدالت میں ثابت بھی نہ ہونے پائے لیکن آپ کو گرفتار کر لیا جائے۔ میڈیا پر آپ کی ہتھکڑیاں لگی تصاویر جاری کی جائیں اور فواد چوہدری جیسے اجرتی سیاستدانوں سے آپ کے بارے میں جرائم کی الف لیلوی داستانیں گھڑکر بیان کروائی جائیں۔ کیا آپ اور آپ کا خاندان یہ سب کچھ برداشت کر سکتا ہے ؟

اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر زور وشور سے تماش بینی جاری رکھتے ہوئے الزامات کی بنیاد پر مقتدر قوتوں کے پراپیگینڈے کے زیر اثر جگتیں لگائیے، فقرے کسئے، اور احد چیمہ جیسے لوگوں کے خلاف چور چور کے نعرے مار کر وقت گزاری کیجئے۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر بابنگ دہل یہ تقاضہ کیجئے کہ احتساب کے نام پر انتقام اور مقتدر قوتوں کی پشت پناہی پر عدل کے مختلف پیمانوں کا معیار رکھنا بند کیا جائے۔ احد چیمہ جیسے افسران کو سیاسی لڑائی میں بلی کا بکرا بنانے اور راو انوار جیسے اجرتی قاتلوں کو پیدا کرنے والی قوتوں کوجب تک قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا تب تک یہ نظام اور ریاست دوہرے پن کی تصاویر پیش کرتے ہوئے محض گول داِئروں میں گھومتے ہی چلے جائیں گے۔

عماد ظفر

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔