ہم ایک عجیب دور میں زندہ ہیں۔ ایسا دور جس میں ہم نصیحتوں کے انبار لگاتے ہیں، مگر خود ان پر عمل کرنے سے انکاری ہوجاتے ہیں۔ زبانیں ہمارے پاس بے شمار ہیں، مگر عمل کے لیے ایک قدم اُٹھانا بھی بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ نظر نہیں آتا، یہ ایک جملہ نہیں، یہ ہمارے اجتماعی رویوں، ہماری بے حسی اور دوعملی کا نوحہ بھی ہے۔
ہم سڑکوں پر بھی گرتے ہیں، رویوں میں بھی اور اخلاقیات میں بھی، مگر پھر بھی ہم صرف دوسروں کو ہی کہتے ہیں نظر نہیں آتا۔ شاید ہم خود کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ نہ اپنی غلطیاں، نہ اپنے رویے، نہ اپنی کمزوریاں۔ مگر اصل حادثہ کچھ اور تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ میں پیدل سفر کر رہا تھا۔ سورج دھیمی تپش کے ساتھ فضا میں موجود تھا۔ ٹریفک معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ میں پوری توجہ کے ساتھ سامنے سے آتے ہوئی ٹریفک کو دیکھتے ہوئے چل رہا تھا۔ کیونکہ دو رویہ (سیپریٹر) سڑک کی وجہ سے دوسری سائیڈ کی ٹریفک اپنی سمت رواں دواں تھی۔ میری نگاہیں سامنے تھی، راستہ صاف تھا، سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ اچانک پیچھے سے ایک موٹرسائیکل میرے پہلو سے بری طرح ٹکرائی، ایک لمحہ کے لئے میں اپنا توازن کھو بیٹھا۔ فضا میں اُچھل کر میں دھڑام سے زمین پر گرا، زمین سخت تھی، شکر ہے کوئی ظاہری چوٹ نہیں آئی۔ مگر اس زمین سے سخت اور تکلیف دہ ٹکر مارنے والے کا رویہ اور لہجہ تھا۔ مجھے سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا کہ موٹرسائیکل والا غصے سے چلایا کہ نظر نیئں آندا؟
میں حیرت زدہ کہ عجیب آدمی ہے، میں اس کے سامنے تھا، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ مجھے ہارن یا آواز دیتا یا بچانے کی کوئی سعی کرتا کیونکہ وہ مجھے دیکھ سکتا تھا جبکہ میری نظریں تو سامنے تھیں، میں اتنا پہنچا ہوا تو نہیں کہ پیٹھ پیچھے بھی دیکھ سکتا۔ وہ خود غلط سمت سے آیا تھا، اس نے ٹریفک کے اصول توڑے تھے، مگر اُس کی نظر میں قصوروار بھی میں تھا۔ جیسے واقعتا مجھ سے جرم سرزد ہوا ہے۔
میں نے اپنا آپ جھاڑا، جسم کے درد کو نظرانداز کیا اور آگے بڑھ گیا، تھوڑی دور فاصلہ پر مسجد تھی، جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے وضو کیا اور صف میں بیٹھ گیا، لیکن حیرت کے جھٹکے کیساتھ اصل صدمہ تو اُس وقت ہوا جب منبر پر بیٹھے شخص کو دیکھا جو انتہائی دلسوز انداز میں سامعین کو شرافت، خوش اخلاقی، تحمل، بردباری، صبر، برداشت جیسی نصیحتوں کے ساتھ اصلاح معاشرہ کا درس دے رہا تھا۔ یہ تو وہی شخص تھا جس نے تھوڑی دیر پہلے مجھے موٹر سائیکل کی ٹکر مار کر گرایا اور انتہائی بداخلاق اور بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں میری قطعی مُراد یہ نہیں کہ علمائے حق ایسے ہیں۔ لیکن جس طرح دُنیاوی عہدوں پر کچھ نااہل لوگ کسی عہدہ پر بیٹھ جاتے ہیں اور ادارے یا محکمے کی بدنامی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ان صاحب کا شمار بھی انہی نااہل لوگوں میں کیا جاسکتا ہے۔
میری حیرت اب افسوس میں بدل چُکی تھی۔ میں سوچ رہا تھا، کاش یہ شخص ان باتوں میں سے کچھ اپنے اوپر بھی آزما لیتا۔ مگر صرف یہ ایک شخص کا مسئلہ نہیں، یہ مجھ سمیت ہم سب من الحیث القوم کا مسئلہ ہے۔ ماں بچوں سے کہے گی، بیٹا کسی کی برائی نہیں کرنی، خود ہر ایک کی برائی انہی بچوں کے سامنے کر رہی ہوتی ہے۔ باپ کہے کا گھنٹی ہوئی ہے باہر جاکر دیکھو کون آیا ہے اور ہاں اگر کوئی میرا پوچھے تو کہنا بابا گھر پر نہیں ہیں۔ اُستاد بچوں کو نصیحت کرے گا، کسی کو گالی طعنہ نہیں دینا جب کہ خود اسی معاشرہ کا حصہ ہونے کے ناطے بچوں کو کسی بات پر ناراض ہونے پر گالیاں اور طعنہ زنی کررہا ہوگا۔ تاجر قسمیں اُٹھا کر غلط مال زیادہ نرخ پر فروخت کررہا ہوگا۔ ہم بولتے اور سنتے بہت ہیں مگر عمل تو بالکل نہیں کرتے۔
ہماری تقاریر بہترین، ہماری تحریریں متاثرکن، ہمارے نصیحت آموز جملے دل موہ لینے والے مگر عمل؟ عمل کہیں کھو چکا ہے۔ ہم اگلی صفوں پر بیٹھ کر واعظ سنتے ہیں، مگر صف سے باہر نکلتے ہی سب بھول جاتے ہیں۔ ہم ٹریفک قانون پر لیکچر دیتے ہیں، مگر خود سگنل توڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم مسجد میں نرم گفتاری کا درس دیتے ہیں، مگر باہر لوگوں سے تلخی سے پیش آتے ہیں۔ ہماری سماجی دوعملی اس قدر عام ہوچکی ہے۔ ہمیں اب اس پرحیرت بھی نہیں ہوتی۔ ہم نے اسے معمول روایت اور مزاج سمجھ لیا ہے۔
اصل مسئلہ ہم خود کو دیکھتے ہی نہیں۔ نظر نہیں آتا؟ یہ جملہ صرف اس شخص نے مجھے نہیں کہا تھا، یہی جملہ روزانہ ہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں۔ کبھی لفظوں میں، کبھی رویوں میں، کبھی نظروں میں، کبھی عمل میں۔ ہمیں دوسروں کی غلطیاں خوب نظر آتی ہیں۔ ان کے رویوں کی خامیاں، ان کی کوہتایاں، ان کے لہجے کا انداز، ان کی گاڑی کا غلط مڑجانا، سب کچھ مگر اپنی غلطیاں؟ ہم ان کے وجود سے انکاری ہیں۔ ہم اپنی نظروں کے سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے جسے ہم خود کہتے ہیں؟
ہماری سڑکیں، ہمارا مزاج، ہماری معاشرت سب میں وہی مسئلہ۔ ہم ایسی قوم بن چکے ہیں جو ہر غلطی کا ذمہ دار دوسرے کو ٹھہراتی ہے۔ جیسے خود غلط سائیڈ پر سواری لے آئے، قصور دوسرے ڈرائیور کا؟ لائن کاٹ دے، تو کہہ دے، مجھے جلدی ہے، تم کیوں رُکے ہو؟ خود چیخے مگر جواب میں خاموشی کی اُمید رکھے۔ خود غلطی کرے مگر معذرت و معافی جیسے الفاظ زبان پر نہ لائے، ہماری زبان اور عمل میں جو فرق ہے، وہی آج ہمارا سب سے بڑا اخلاقی بحران ہے۔
ایک طرف منبر پر کھڑا شخص لوگوں کو نرم گفتاری، اخلاق، برداشت اور صبر کا درس دے رہا ہے۔ دوسری طرف وہی شخص بدکلامی کررہا ہے۔ توکیا مسئلہ مسجد میں ہے؟ نہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسجد کی باتوں کو مسجدتک محدود کر دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں نصحت کہنا سننا ضروری ہے، ان پر عمل کرنا اختیاری ہے۔
قوموں کی ترقی اصولوں کی پابندی سے ہوتی ہے۔ دُنیا کی ترقی یافتہ قومیں قوانین کی پابندی کرتی ہیں۔ ٹریفک کے اُصولوں کو اخلاقیات کا حصہ سمجھتی ہیں۔ اپنی غلطی ماننے کو کمزوری نہیں بلکہ بڑائی سمجھتی ہیں۔ عمل کو الفاظ پر ترجیح دیتی ہیں۔ ہماری ترجیحات اُلٹ ہو چکی ہیں۔ ہمیں اچھی باتیں کہنے میں مزہ آتا ہے، عمل میں نہیں۔
آخر میں گزارش ہے۔ ہم اگر واقعی اپنے معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں تو تبدیلی کی شروعات تقریروں سے نہیں عمل سے ہوگی، نصیحتوں سے نہیں کردار سے ہوگی، دعوؤں سے نہیں حقیقت سے ہوگی، دوسروں کی غلطیاں دکھانے سے نہیں، اپنی غلطیاں ماننے سے ہوں گی اور سب سے بڑھ کر تبدیلی تب آئے گی جب ہم خود کو دیکھ لیں گے۔ کاش ہم اپنے اندر ہمت پیدا کرسکیں کہ غلطی ہم سے بھی ہوسکتی ہے۔ شاید وقت آگیا ہے کہ نظر نہیں آتا؟ ہم یہ سوال دوسروں سے نہیں خود سے کریں۔