1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد اکرم اعوان
  4. مسلم ممالک کا اتحاد اہمیت و ضرورت

مسلم ممالک کا اتحاد اہمیت و ضرورت

آج کی دُنیا تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات سے گزر رہی ہے۔ طاقت کے توازن میں واضح تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ایک طرف مغربی طاقتیں اور ان کے اتحادی اپنے معاشی، سیاسی اور عسکری مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں تو دوسری طرف مسلم دُنیا انتشار، داخلی خلفشار اور بیرورنی دباو، کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں مسلم ممالک کے لیے باہمی اتحاد، دفاعی معاہدے اور مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔

مسلم دُنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی اُمت مسلمہ نے اتحاد کا مظاہرہ کیا، اس کے اثرات نہ صرف اسلامی دُنیا بلکہ پوری دُنیا پر مرتب ہوئے۔ خلافت راشدہ کے دور میں اسلامی سلطنت نے کم وسائل کے باوجود عظیم فتوحات حاصل کیں کیونکہ قیادت مضبوط اور اُمت متحد تھی۔ بعد ازاں عباسی اور عثمانی خلافت کے ادوار میں بھی یہ اتحاد مسلم دُنیا کی طاقت کا مظہر تھا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک میں اندرونی اختلافات، قوم پرستی اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت نے انہیں تقسیم کردیا۔ استعماریت کے دور میں مغربی طاقتوں نے مسلمانوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹ دیا تاکہ ان کے لیے اجتماعی طاقت کے ساتھ کھڑا ہونا مشکل ہوجائے۔ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج پچاس سے زائد مسلم ممالک موجود ہونے کے باوجود وہ عالمی سطح پر ایک مضبوط بلاک کی صورت میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصرہیں۔

موجودہ دور میں عالمی سیاست میں طاقت کا مرکز بدل رہا ہے۔ امریکہ، چین، روس اور یورپی ممالک دُنیا کے مختلف خطوں میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے میں مصروف ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کے لیے دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔ کیونکہ یہ خطہ نہ صرف توانائی کے وسائل سے مالا مال ہے بلکہ اس کی جغرافیائی حیثیت بھی انتہائی اہم ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں مسلم ممالک کئی جنگوں، خانہ جنگیوں اور بحرانوں سے گزرے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ، شام کی خانہ جنگی، یمن کا بحران، افغانستان کی غیریقینی صورتحال اور عراق میں جاری بدامنی مسلم دُنیا کو شدید طور پر متاثر کر رہی ہے۔ ان حالات میں بیرونی طاقتیں اپنی مرضی کے مطابق پالیسیاں مسلط کررہی ہیں، جس کے نتیجے میں مسلم ممالک مزید کمزور ہو رہے ہیں۔

مسلم ممالک کی مجموعی آبادی تقریباََ دو ارب کے قریب ہے اور ان کے پاس وافر قدرتی وسائل موجود ہیں۔ اگر یہ ممالک دفاعی اور معاشی لحاظ سے متحد ہو جائیں تو دُنیا کی سب سے بڑی طاقت بن سکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے باہمی اختلافات، سیاسی مفادات اور بیروی دباو، نے انہیں ایک دوسرے کے قریب آنے سے روکے رکھا ہے۔

دفاعی معاہدے اور عسکری تعاون نہ صرف مسلم ممالک کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں بلکہ ان کے عوام کے اعتماد کو بحال کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسلم ملک بیرونی جارحیت کا شکار ہوتا ہے تودیگر ممالک کو اس کے دفاع کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک مضبوط دفاعی اتحاد قائم کیا جائے۔

حال ہی میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک اہم دفاعی معاہدہ طے پایا ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے دور کی شروعات ہے۔ اس معاہدے کے تحت نہ صرف دفاعی تعاون کو فروغ دیا جائے گا بلکہ دونوں ممالک کی مسلح افواج کے درمیان تربیتی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی تعاون بڑھایا جائے گا۔

پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور دفاعی شعبے میں وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ جبکہ سعودی عرب خطے میں ایک معاشی اور سیاسی طاقت کے طور پر نمایاں ہے۔ دونوں ممالک کا یہ اشتراک مسلم دُنیا کے لیے اُمید کی کرن ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم ممالک باہمی تعان سے بیرونی دباو، کا بھرپور طریقہ سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ فلسطین اور غزہ کی صورتحال، یمن کامسئلہ اور عالمی طاقتوں کی مداخلت نے مسلم دُنیا کو غیرمستحکم کردیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ معاہدہ مسلم دُنیا کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے۔ کہ اگر وہ متحد ہوں تو اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں۔

مستقبل کے چیلنجز اور تجاویز

1۔ اعتماد سازی: مسلم ممالک کے درمیان سب سے بڑی روکاوٹ اعتماد کی کمی ہے۔ اسے ختم کرنے کے لیے مشترکہ سفارتی کوششیں اور شفاف پالیسیوں کی ضرورت ہے۔

2۔ مشترکہ دفاعی فورم: ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کیا جائے جس میں تمام مسلم ممالک کی افواج او ر دفاعی ماہرین شامل ہوں۔

3۔ معاشی تعاون: دفاعی اتحاد کے ساتھ ساتھ معاشی تعاون کو بھی فروغ دینا ہوگا تاکہ جنگی صورتحال میں مالی وسائل کی کمی نہ ہو۔

4۔ عسکری ٹیکنالوجی کا تبادلہ: مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی ٹیکنالوجی شیئرکرنی چاہیے تاکہ بیرونی طاقتوں پر انحصار کم ہو۔

5۔ عوامی شعور: عوام میں اس بات کا شعوربیدار کیا جائے کہ اتحاد ہی مسلمانوں کی بقاء کا ضامن ہے۔

موجودہ عالمی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلم ممالک اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں۔ دفاعی معاہدے نہ صرف ان کے وجود کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں بلکہ اُمت مسلمہ کے وقار اور عزت کی بحالی کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔

پاکستان اور سعودی عرب کا حالیہ دفاعی معاہدی ایک خوش آئندقدم ہے، مگر یہ پہلا قدم ہے۔ مسلم دُنیا کو اجتماعی طور پر ایسے مزید اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکے اور عالمی سیاست میں ایک باوقار مقام حاصل کرسکے۔

محمد اکرم اعوان

Akram Awan

محمد اکرم اعوان نوائے وقت، ڈیلی پاکستان، ڈیلی طاقت اور دیگر قومی اخبارات میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اخلاقی اور سماجی مضوعات کو اپنا عنوان بنانا پسند کرتے ہیں۔