1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد اکرم اعوان/
  4. کیا یہ انسانوں کی بستی ہے

کیا یہ انسانوں کی بستی ہے

کسی بھی معاملہ یاعمل کے رد ِعمل کے طور پرہم جس رویہ کا اظہار کرتے ہیں وہ ہماری اندر کی سوچ کا عکس ہوتاہے۔ یہی سوچ دوسروں کے ساتھ ہمارے معاملات پراثرانداز ہوتی ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ اعمال کا دارومدار انسان کی نیت پرہے۔ جوآپ سوچ رہے ہوتے ہیں، وہ سوچ ہی عمل پراُکساتی ہے۔ اچھی سوچ اورنیت، اچھے کردار کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرہ میں تسلسل سے وقوع پذیرہونے والے وحشت، بربریت اوردرندگی کے واقعات ہماری سوچ کا عکس ہی توہیں۔
سوچ عمل کی صورت میں عیاں ہوکررہتی ہے۔ پھراسی سوچ کے تحت ہم سمجھتے ہیں، کہ ہم جوکچھ کررہے ہیں، وہ ہمارا حق ہے۔ کون ہمیں دیکھ رہاہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ دُنیا میں کسی طرح ہمارے عمل کی خبرنہ ہو، دُ نیامیں اپنے جرم کی سزا سے بچ بھی جائیں، توبھی کون ساہمارا، اس دُنیامیں مستقل قیام ہے۔
ہمیں ایک ناں ایک دن اللہ کے پاس جانا ہے اوراُس کی ذات سے توکوئی چیزمخفی نہیں۔ ترجمہ -:وہ (اللہ) ہی ہے جس نے تم کومٹی سے پیدا کیاپھرتمہارے لئے موت کا ایک وقت مقرر کردیا اور (قیامت کی) ایک مدت اوربھی اس کے پاس مقررہے مگرتم لوگ ہوکہ شک میں پڑے ہوئے ہو۔ وہی ایک اللہ آسمانوں میں بھی ہے اورزمین میں بھی، وہ تمہارے ظاہروپوشیدہ سب حال جانتا ہے اورجوبرائی یابھلائی تم کماتے ہواسے بھی وہ خوب جانتاہے۔ (سورة الانعام)
ہماری اجتماعی بداعمالیوں کے سبب آج معاشرہ مکمل طور پرتبا ہ وبرباد ہوچکا ہے اور ہم اخلاقی پستی کی آخری حدوں کوچھو رہے ہیں۔ ہمارے اعمال معاشرے میں بگاڑاورعدم استحکام کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ہمارے دلوں کی سختی اور اخلاقی پستی کی حالت یہ ہے کہ آئے روز ظلم کی نئی داستان سننے کوملتی ہے، تھوڑی دیر ہم لرزتے ہیں، پھرویسے کے ویسے۔
دوسرے دن پھرکوئی منحوس خبرسنتے ہیں اورپھروہی کیفیت۔ ہرطرف دُکھ، مصیبتیں اورپریشانیاں ہیں۔ ہرطرف آہ وبکااورکسی کی جان و مال، عزت وآبروتک محفوظ نہیں۔
جس معاشرے میں غرور، تکبر، نفرت، غصّہ، عدم توازن، ناہمواری بڑھ جائے پھراُسے تباہ اوربربادہونے سے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ جس کسی نے بھی اللہ کے بندوں کے حقوق مارے، ستایا، تکلیف کا ذریعہء بنا، کسی قسم کی زیادتی کی یا نقصان پہنچایا، ناحق قتل کیا تو یہ ظلم ہے۔
یہی وجہ ہے آج ہم اِطمینان ِ قلب اور سکون سے محروم ہیں۔ بیماریاں، پریشانیاں اور مصیبتیں موجودہ حالات کی صورت میں ہماری بداعمالیوں کی سزا ہیں۔ ارشادِ نبویﷺ کامفہوم ہے کہ جن میں ہمدردی کا جذبہ نہ ہو، ان پر کوئی رحمت نازل نہیں ہوتی۔
گئے گزرے وقت کی بات ہے، بھائی نے اپنے سگے بھائی کا قتل کردیا، جائیداد کا مسئلہ ہوگا، دولت کی تقسیم پراختلاف ہوگا، شایدسلطنت یا اقتداراوربادشاہت کاحصول اس کی وجہ ہو۔
نہیں ان میں سے کوئی وجہ بھی قتل کی نہیں تھی، سگے بھائی کے قتل کی وجہ تھی، ایک درخت، ہاں محض ایک درخت۔ ایک نے کہایہ میرے حصے کی زمین پرہے، دوسرے نے کہانہیں یہ درخت میراہے، کیونکہ یہ میرے حصے کی زمین پرہے، بات اتنی بڑھی کہ بھائی نے طیش میں آکراپنے سگے بھائی کا قتل کردیا، یہ پرانی کہانی ہے، گئے گزرے وقتوں کی بات ہے۔ جب جہالت کا دور دورہ تھا، علم اورشعورنہیں تھا، لوگ ترقی یافتہ نہیں تھے۔
شہروں سے دورجنگل کی کسی ڈھوک، وسیب یاچندافرادپرمشتمل دیہات کی بات ہے۔ مگراب تو تعلیم عام ہے، ترقی اتنی کہ باپ کوپاپااورماں کوموموکہاجاتاہے۔ لیکن آئے روزنئے سے نئے مظالم کے واقعات رونما ہوئے رہے ہیں۔ رحم اورترس نام کی کوئی چیزرہ ہی نہیں گئی۔ غریب طبقہ پرتشدد، بچوں پرظلم، گھروں میں کام کرنے والی معصوم جانوں کو طرح طرح کی اذیت دینے کے واقعات، کہیں شہروں سے دور بہت دور ریگستان، صحرا، پہاڑوں، جنگلوں یا ان پڑھ، جاہل، انسانیت کے دُشمن آدم خوروحشی اور غیر مہذب قبائل کے نہیں، بلکہ اسلام آباد، لاہور، شیخوپورہ، میانوالی، ایبٹ آباد، کراچی اورپاکستان بھرکے بڑے شہروں کی اشرافیہ، پڑھے لکھے، وکیل، جج، اُستاد، ڈاکٹر، سیاستدان، قانون نافذکرنے والے اداروں کے ملازمین اوراپنے آپ کومہذب کہلانے والے طبقہ کی درندگی، وحشت، بربریت اورمظالم کی داستان ہیں۔
گھریلوملازمہ عظمیٰ کوجس ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا، یہ سن کرانسانیت شرما جائے۔ عظمیٰ غریب گھرکی بیٹی تھی، شایداسی لئے ذرا بھی ڈریا خوف نہ آیا۔ فرض کریں، اونچی ذات کی پلیٹ سے نوالہ کے علاوہ بھی عظمیٰ کاکوئی اورسنگین جرم تھا، پھربھی مسلسل اذیت، تشددکرنے کاحق کس نے دیاتھا، یہ اندر کاتکبراور سوچ ہی تھی کہ ہمارا کوئی کیا بگاڑلے گا۔
اتنی بے رحمی اورظلم روا رکھا، اس اذیت سے بھی دل کی سختی کم نہ ہوئی، نہ ترس آیابلکہ مزیدبے رحمی سے قتل کردیا، پھرلاش کوگندے نالے میں پھینک دیا۔ اپناجرم چھپانے کے لئے اُلٹاچوری کامقدمہ درج کروا دیا۔
اس انسانیت سوزواقعہ سے ہمارے اس بے حس معاشرہ میں کیاہوگا، کچھ بھی نہیں ہوگا، ہم کچھ دن افسوس کریں گے، مذمت کریں گے، کسی نئے واقعہ، نئے حادثہ، نئے ظلم کا انتظار کریں گے، پھرکوئی کم ذات پلیٹ سے ایک نوالہ کھانے، کام میں سستی کرنے یاگھرکاقیمتی برتن توڑنے، چائے، پانی دینے میں تاخیر یاکسی بھی معمولی غلطی پرقتل کردیا جائے گا۔
کیا یہ انسانوں کی بستی ہے؟نہیں ہرگزنہیں، بلکہ اپنے معاملوں میں بے رحم ہوجانے والے بدمست جانوروں، درندوں کا مسکن ہے۔ پورے کاپورا سماج غرور، تکبر، بے رحمی کی انتہاکی وجہ سے ظلم وجبر، تشددپراُترچکا ہے۔ دراصل ہمارا معاشرہ درندگی اور حیوانیت کی حدوں سے بھی گرچکا ہے۔ جہاں معصوم بھانجے کواس لئے جینے کے حق سے محروم کردیا جاتاہے کہ وہ میرے بیٹے سے زیادہ خوبصورت کیوں ہے، اسلام آباد میں قانون کی طالبہ سے وکیل کی مبینہ جنسی درندگی، میو ہسپتال لاہورمیں بیمار بچے کو لے کرآنے والی ماں سے درندگی، حویلیاں میں 3سالہ فریال سے درندگی وقتل، شیخوپورہ کے علاقہ ستار شاہ میں درندگی، جہاں4سالہ نورین کوقتل کرکے نعش گندے نالے میں پھینک دی گئی اورکراچی میں اڑھائی سالہ معصوم ننھی پری کوماں کے ہاتھوں سمندربردکرنے جیسے بیہمانہ واقعات کا تسلسل اس بات کی دلیل ہے کہ تعلیم وترقی بھی کچھ نہیں بدل سکی، ہمارا معاشرہ بے راہ روی، غرور، تکبراور ذہنی طورپربیمارمعاشرہ بن چکاہے۔

محمد اکرم اعوان

محمد اکرم اعوان نوائے وقت، ڈیلی پاکستان، ڈیلی طاقت اور دیگر قومی اخبارات میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اخلاقی اور سماجی مضوعات کو اپنا عنوان بنانا پسند کرتے ہیں۔