1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. ارشاد بھٹی/
  4. شریفوں کی شرافتیں!

شریفوں کی شرافتیں!

پانامہ لیکس ہوئیں، نواز خاندان کا نام آیا، سلمان شہباز کا معروف صحافیوں کو موبائل پیغام آ گیا"خدا کا شکر، ہم محفوظ، ہمارے خاندان کا نام نہیں آیا" 3 سال بعد آج شہباز خاندان کی مبینہ منی لانڈرنگ، پتا چلے، حسن، حسین سیر تو حمزہ، سلمان سوا سیر، اہل خانہ کو بھی نہ بخشا، گھر کی خواتین، جعلی نام، فرضی شناختی کارڈ، مشکوک سرمایہ کاری، بات کریں، کہا جائے خوفِ خدا کرو، خواتین کو تو بخش دو، پہلی بات، یہ تو آپ کو سوچنا چاہئے تھا، دوسری بات، بینک ریکارڈ بتا رہا شہباز شریف کی پہلی اہلیہ نصرت شہباز کے اکاؤنٹ سے پیسے جائیں شہباز شریف کی تیسری اہلیہ تہمینہ درانی کو، ان پیسوں سے وہ 3 فلیٹس خریدیں، وہی تہمینہ درانی جو بڑے فخر سے بتائیں، میں تو عبدالستار ایدھی کی مرید، میرے پاس تو 10 مرلہ گھر کے علاوہ کچھ نہیں، آگے سنئے، نصرت شہباز کے پاس پیسے کہاں سے آئے، بینک ریکارڈ ہی بتائے، 21 اپریل 2010ء کو الزرونی ایکسچینج کے ذریعے محمد انجم 20 ہزار ڈالر سرمایہ کاری کی مد میں نصرت شہباز کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے، حالانکہ بتایا تو یہ جائے کہ نصرت شہباز گھریلو خاتون، یہ الزرونی وہی کمپنی جس کا زرداری جعلی اکاؤنٹس کمپنیوں میں بھی نام، برلاس جنرل ٹریڈنگ کے بعد دوسری کمپنی جس کا زرداری صاحب، ہاؤس آف شریفس دونوں طرف نام آ چکا، آگے سنئے، پھر وہ غریب پھیری والا محبوب علی، جسے اب حمزہ، سلمان پہچان ہی نہیں رہے، اس نے بھی 14 دسمبر 2007 کو 1 لاکھ 27 ہزار ڈالر سرمایہ کاری کیلئے نصرت شہباز کے اکاؤنٹ میں بھیجے۔

تیسری بات، شریفس یہ کیوں بھول جائیں، بے نظیر بھٹو بھی بیٹی، ماں، کردار کشی چھوڑیں، آپ کی حکومت میں سیف الرحمان، جسٹس قیوم کی برکتوں سے وہ بچوں سمیت تھانے، کچہریوں میں رُلتی رہیں، جمائما خان بھی بیٹی، ماں، نایاب ٹائلز کا مقدمہ آپ نے بنوایا، سال بھر پاکستان نہ آ سکیں، عائشہ احد بھی بیٹی، ماں، کیا کیا نہ کیا حمزہ شہباز نے، ماڈل ٹاؤن میں آپ کی حکومت میں بیٹیوں، ماؤں کے منہ میں گولیاں ماری گئیں، ان کی نقلی تعزیت کیلئے بھی آپ نہ گئے، دو جعلی بول ہمدردی کے بھی نہیں، قصور کی زینب بھی معصوم بیٹی، اس کے لئے نکلے لوگوں کو سیدھی گولیاں ماری گئیں، معذرت نہ پشیمانی، 11 کروڑ کے پنجاب میں ہزاروں دکھی بیٹیاں، مائیں تھانے، کچہریوں میں رُلتی، فریادیں کرتی رہیں، آج اپنی بیٹیوں، ماؤں پر تڑپ رہے، تب ٹس سے مس کیوں نہ ہوئے۔

یہ بھی سنتے جائیے، نواز شریف سے مریم تک، شہباز شریف سے سلمان تک، آئے روز یہ کہیں، ہمارا تو ہر دور میں احتساب ہوا، کوئی پوچھے کس دور میں ہوا اصل احتساب، بھٹو دور میں چند فیکٹریاں ہاتھ سے نکلیں مگر یہ بھی تو بتا دیا کریں ضیاء دور میں اس احتساب کی کیسے سود سمیت وصولی کی، پی پی دور میں اتفاق فاؤنڈری کا اسکریپ بھرا "جوناتھن، جہاز 3ماہ بندرگاہ پر روکنے پر جتنا شور مچایا گیا، اتنی ہی خاموشی سے اسی دور میں اتفاق فاؤنڈری نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی، پرویز مشرف دور، جس میں کہا لٹ گئے، اجڑ گئے، آمر نے کہیں کا نہ چھوڑا، ابھی شہباز خاندان کے منی لانڈرنگ کیس میں اس دور کے بارے میں جو تفصیلات، ایک ٹریلر دیکھ لیں، جب شریف خاندان ڈیل کے بعد سعودیہ میں سرور محل کے سرور میں کھویا ہوا تھا، تب پاکستان میں حمزہ کا یوں احتساب ہو رہا تھا کہ کاروبار پہ کاروبار، کمپنیوں پہ کمپنیاں، جی ہاں، مشرف دور میں یکم فروری 2005 کو یورپین ٹریڈنگ کارپوریشن بن گئی، 12 مئی 2005 کو مدینہ ٹریڈنگ، 29 جون 2005 کو شریف فیڈ ملز پرائیویٹ لمیٹڈ بنی، 17 اپریل 2006 مدینہ کنسٹرکشن پرائیویٹ لمیٹڈ، 10 اپریل 2007 کو شریف پولٹری فارمز، 7 اکتوبر 2006 یونیٹا پاور لمیٹڈ بنالی، لیکن اُتوں اُتوں ہائے ساڈا ککھ نہ رہیا، اندازہ کریں بھٹو، بی بی، پرویز مشرف کے ایسے لذیذ احتساب کہ آج بھی 35چالیس فیکٹریاں، پاور ہاؤسز پاکستان میں، 5 براعظموں میں جائیدادیں، دودھ، مرغی، انڈے، آٹے، تیل، گھی، ٹنڈے، بھنڈی سمیت بھانت بھانت کے کاروبار اس کے علاوہ۔

مگر یہ سچ بولیں، ناممکن بلکہ مجھے تو لگ رہا، پانامہ لیکس تاریخ دہرائی جا رہی، وہی جھوٹ، وہی غلط بیانیاں، وہی چالبازیاں، تب حسن، حسین، مریم سے سنتے، ہم پبلک آفس ہولڈر ہی نہیں، کیسی پبلک منی، کیسی لانڈرنگ، کیسی کرپشن، آج حمزہ، سلمان کہہ رہے، یہ کہانی تب کی، جب ہم پبلک آفس ہولڈر ہی نہیں تھے، تب نواز خاندان کہہ رہا تھا، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر ہم سے پوچھے، نیب کو کیا تکلیف، اب شہباز خاندان کہہ رہا اسٹیٹ بینک، ایف بی آر پوچھے نیب کیوں پوچھ رہا، سب کو نیب آرڈیننس 1999کا سیکشن 9-A کا 5 پبلک آفس ہولڈر پڑھانا چاہئے، جس میں پبلک آفس ہولڈر کے dependent، بے نامی جائیداد اور ذرائع آمدنی سے زیادہ اثاثوں سمیت سب کچھ واضح، کچھ کسر رہ جائے تو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 پڑھ لیں، ٹھنڈ پڑ جائے گی۔

حمزہ کی سنتے جائیے، درجنوں پریس کانفرنسز، بیسیوں دھمکیوں بھرے بیانات، مگر 5ماہ، 5پیشیاں، اس ایک سوال کا جواب بھی نہیں کہ "2005 سے 2017 کے دوران اثاثوں میں اضافہ کیسے ہوا، 18 کروڑ کہاں سے آئے، کچھ پتا نہیں"، ایک بار تو چونک کر نیب ٹیم سے پوچھا "یہ پیسے میرے اکاؤنٹ میں آئے"، میری بیمار والدہ کو بھی نوٹس بھیج دیا گیا، یہ واویلا کرتے حمزہ کو تحریری طور پر کہا گیا کہ آپ اگلی پیشی پر والدہ نصرت شہباز کے حوالے سے ریکارڈ لیکر آئیں، ریکارڈ کیا لانا، نیب ٹیم نے والدہ کے بار ے میں سوال کئے، بولے "والدہ سے متعلق جو پوچھنا، وہ والدہ سے ہی پوچھیں" یہ بھی سنتے جائیے، سلمان شہباز فرما رہے تھے "میں کسی محبوب علی، منظور احمد، مشتاق محمد المعروف مشتاق چینی کو نہیں جانتا" حالانکہ محبوب علی وہ غریب پھیری والا جو نصرت شہباز، حمزہ شہباز کے ساتھ 3 اپریل 2008 کو سلمان کے اکاؤنٹ میں بھی سوا لاکھ ڈالر جمع کرا چکا جبکہ پاپڑ فروش منظور احمد نے تو 29 جولائی 2008 کو سلمان شہباز کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ 86 ہزار ڈالر سمیت کئی بار رقمیں جمع کرائیں، جہاں تک مشتاق محمد المعروف مشتاق چینی کی بات، وہ تو نیب کو یہاں تک بتا چکا "میر ی جانب سے سلمان شہباز کو بطور قرضہ دی گئی رقم بھی دراصل سلمان شہباز کی ہی تھی، رقم بذریعہ ٹی ٹی میرے اکاؤنٹ میں آئی، میں نے اسی طرح سلمان شہباز کے اکاؤنٹ میں واپس بھیج دی"۔

دو دن پہلے منگل کو نیب نہ صرف شہباز خاندان کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں 20 صفحاتی رپورٹ کے ساتھ انہی ثبوتوں کا ایک پلندہ جمع کرا چکا بلکہ 32سوالوں پر مشتمل ایک سوالنامہ نصرت شہباز، دونوں بیٹیوں رابعہ عمران، جویریہ علی اور سلمان شہباز کی اہلیہ کو بھجوا چکا، ثبوت بتا رہے، ان خواتین کے اکاؤنٹس میں بھی مشکوک رقوم آئیں، گئیں، یہ سب کمپنیوں کی شیئرز ہولڈرز بھی لیکن شریفوں نے خواتین کے نام پر یہ سب ابھی نہیں کیا، حدیبیہ پیپر مل میں ہاؤس آف شریفس، قریبی رشتہ دار وہ 20 خواتین، جن کے نام پر کی گئی منی لانڈرنگ کو اسحاق ڈار نے خود مانا، دل تو بہت چاہا کہ ان خواتین کے نام لکھوں مگر ماؤں بہنوں کا احترام آڑے آگیا، پھر بھی اگر کوئی عبرت یا اصلیت کیلئے کچھ جاننا چاہے تو حدیبیہ پیپر مل فائل پڑھ لے یا دو دن پہلے نیب کا لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرایا ثبوتوں کا پلندہ دیکھ لے، شریفوں کی "شرافتیں، آنکھیں کھول دیں۔